Maktaba Wahhabi

38 - 342
آپ نے صرف اتنا فرمایا:(مَا ذَا کُنْتَ تُحَدِّثُ بِہِ نَفْسَکَ؟) ’’تم اپنے دل میں کیا بات سوچ رہے تھے؟‘‘ فضالہ کہنے لگا:کچھ نہیں، میں تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فضالہ کی بات سن کر ہنس پڑتے ہیں۔ فرمایا:(اِسْتَغْفِرِاللّٰہَ) ۔ ’’فضالہ ! اللہ سے استغفار کرو۔‘‘ اور ساتھ ہی اپنا دست مبارک اس کے سینے پر رکھ دیا۔ فضالہ کا دل پر سکون اور سازشی خیالات سے پاک ہو گیا۔ اللہ اکبر! اس سے بڑا خوش قسمت کون ہو سکتا ہے جس کے سینے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست شفقت رکھ دیں؟ فضالہ کی کایا پلٹ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بنانے والا‘ اپنے دل میں بغض و عناد رکھنے والا فضالہ کہتا ہے:ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ شفقت میر ے سینے پر رکھا ،ادھر میرے دل کی کیفیت یکسر بدل گئی۔ آئیے اسی کے الفاظ پڑھتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک میرے سینے سے اٹھایا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں میرے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی نہ رہا۔ فضالہ حرم پاک سے اپنے اہل و عیال کی طرف واپس جا رہا ہے۔ راستے میں اس کی پرانی محبوبہ کھڑی تھی۔ اس نے روک لیا، کہنے لگی:آؤ چند لمحے میرے پاس گزارو۔ مگر اب یہ وہ فضالہ نہیں رہا ، اس کا تزکیۂ نفس ہو چکا ہے، دل کی کیفیت بدل چکی ہے۔ اس نے کچھ اشعار پڑھے جن کا مفہوم یوں ہے: میری محبوبہ نے کہا:آؤ باتیں کریں۔ میں نے کہا:نہیں، اللہ تعالیٰ اور اسلام مجھے ایسے کاموں سے منع کرتے ہیں۔ اگر تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کو فتح مکہ مکرمہ کے موقع پر دیکھ لیتی جب بت ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے تو دیکھ لیتی کہ اللہ تعالیٰ کا دین بالکل واضح ہو گیا ہے اور شرک کے چہرے پر تاریکی چھا گئی ہے۔[1] قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قتل کا منصوبہ بنانے والے کو معاف کر کے اسے جہنم جانے سے بچا لیا۔ کیا دنیا میں ایسا مہربان ‘شفیق اور اعلیٰ اخلاق والا کوئی اور بھی ہے؟
Flag Counter