Maktaba Wahhabi

307 - 342
ہے۔ اس واقعے کو لکھتے ہوئے میرے ذہن میں خیال آیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بدو سے اونٹ ادھار لینے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے علماء کرام کے سامنے اپنا اشکال ظاہر کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ریاست کے سربراہ تھے، صحابہ کرام آپ کے لیے جانیں قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے، اگر آپ کو اونٹ کی ضرورت تھی تو ایک بدو کے بجائے کسی ساتھی کو اشارہ کرتے تو وہ ایک کیا کئی اونٹ فوراً حاضر خدمت کر دیتے۔ صحابہ کرام میں بڑے بڑے مالدار صحابہ کرام بھی موجود تھے؟!! علمائے کرام نے میرے اس اشکال کا جواب دیا:اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کا روشن پہلو نظر آتا ہے۔ اگر آپ کسی صحابی سے لین دین کا معاملہ کرتے تو یہ خدشہ تھا کہ وہ عقیدت میں آکر سرے سے اپنے حق سے ہی دستبردار ہو جاتا جس سے اس کا نقصان ہوتا۔ محبت کی بنا پر وہ مطالبہ نہ کرپاتا اور جھجکتا رہتا۔ اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے لین دین کرنے پر غیر معروف لوگوں سے معاملہ کرنے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔
Flag Counter