Maktaba Wahhabi

305 - 342
قارئین کرام! یقینا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی کو دعائیں دے رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلیٰ اخلاق تھا کہ جب آپ کسی کے ہاں کھانا کھاتے تو اس کے لیے خیروبرکت کی دعا فرماتے۔ حدیث شریف میں ایسے مواقع کی مناسبت سے یہ الفاظ ملتے ہیں:(أَکَلَ طَعَامَکُمُ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلَائِکَۃُ) ’’ نیک لوگ آپ کا کھانا کھائیں اور فرشتے آپ کے لیے دعائیں کریں‘‘،۔ ، سنن أبي داود، حدیث:3854، و صحیح الجامع الصغیر، حدیث:8806۔ قارئین کرام! اب ذرا غور فرمائیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی تربیت کس طرح کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:ساتھیو! (وَالَّذي نَفْسِي بِیَدِہِ لَتُسْأَلُنَّ عَنْ ھٰذَا النَّعِیمِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔‘‘، ، صحیح مسلم، حدیث:2038۔ مزید ارشاد ہوا: (أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُیُوتِکُمُ الْجُوعُ، ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوا حَتَّی أَصَابَکُمْ ہَذَا النَّعِیمُ) ’’تمھیں بھوک نے گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کیا اور جب تم واپس جارہے تھے تو تمھیں کھانے پینے کی یہ نعمتیں میسر آگئیں۔‘‘ قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کتنا عمدہ تھا کہ آپ کسی صحابی کے گھر جانے میں عار نہیں سمجھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو کسی بھی صحابی کو حکم دیتے، وہ کھانے پینے کی چیزیں لے کر فوراً حاضر ہو جاتے، مگر یہ آپ کا اخلاق تھا آپ کا حسنِ تواضع تھا کہ آپ خود چل کر صحابی کے گھر جاتے ہیں، وہاں تشریف رکھتے ہیں، اس کی ضیافت قبول کرتے ہیں اور کھانا کھانے کے بعدجہاں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور میزبانوں کو دعائیں دیتے ہیں،وہیں دلوں میں آخرت کی جوابدہی کا احساس بھی بیدار کرتے ہیں۔
Flag Counter