Maktaba Wahhabi

277 - 342
مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھیے کہ آپ خاصی دیر تک خاموش رہتے ہیں اور پھر ارشاد ہوتا ہے:(نَعَمْ) چلو ٹھیک ہے اسے امان دی جاتی ہے، اس کی معافی قبول ہے۔جیسے ہی آپ نے اسے معافی دی، اس کی سزائے موت منسوخ ہو چکی ہے کہ قائد اعلیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے اس بڑے دشمن کو بھی معاف کر دیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد عبداللہ بن سعد بن ابی سرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ عفو و درگزر سمیٹتے ہوئے واپس چلا جاتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد صحابہ کرام کی طرف دیکھا اور ان سے ارشاد فرمایا:(أَمَا کَانَ فِیکُمْ رَجُلٌ رَشِیدٌ؟) ’’کیا تم میں کوئی ایسا سمجھ دار آدمی نہ تھا؟‘‘ (یَقُوْمُ إِلٰی ھٰذَا حِینَ رَآنِي قَدْ صَمَّتُّ) ’’ جس دوران میں نے کوئی جواب نہ دیا تھا‘‘ (فَیَقْتُلَہُ) اسی اثنا میں اسے قتل کر دیتا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:اللہ کے رسول، آپ اشارہ فرما دیتے تو ہم اسے قتل کر دیتے۔ قارئین کرام! اسے کہتے ہیں اعلیٰ اخلاق۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا، آئیے اسے پڑھتے ہیں:(إِنَّ النَّبِيَّ لَا یَقْتُلُ بِالْإِشَارَۃِ) ’’نبی کسی کو اشارے سے قتل نہیں کیا کرتا‘‘۔ ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:(إِنَّہُ لَایَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ تَکُونَ لَہُ خَائِنَۃُ الْأَعْیُنِ) ’’آنکھ کا وہ اشارہ جو خیانت پر مبنی ہو منصب نبوت کے شایانِ شان نہیں۔‘‘، سنن أبي داود، حدیث:2683 و 4359، و صحیح السیرۃ النبویۃ لإبراہیم العلي:527، والسیرۃ النبویۃ للصلابي:546/2، والبدایۃ والنہایۃ:549/4۔
Flag Counter