Maktaba Wahhabi

263 - 342
دے دیتا تو اس کا احترام کیا جاتا، چونکہ یہ قانون شریعت سے نہیں ٹکراتا، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصول سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ قارئین کرام! یہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست کو داد دیجیے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مسلمان کی پناہ حاصل کرتے تو یہ اعلانِ جنگ کے مترادف بات ہوتی۔ بنوہاشم بلاشبہ بڑا خاندان تھا اور وہ پناہ دے سکتا تھا مگر اس کابڑا سردار ابوطالب تو وفات پا چکا تھا۔ اور ان کے بعد ابولہب تھا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید دشمن تھا، چنانچہ پناہ کا پیغام دینے کے لیے آپ نے بنو خزاعہ کے ایک شخص کو اپنا قاصد بنایا۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ’’میں تمھیں ایک پیغام دے کر بھیجوں تو کیا تم میری طرف سے وہ پیغام پہنچا دو گے؟‘‘ اس نے جب ہامی بھر لی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اخنس بن شریک کی طرف بھیجا اور کہا کہ اس سے جا کر کہو کہ ’’محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم مجھے پناہ دوگے یہاں تک کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں؟‘‘یہ بنو ثقیف سے تعلق رکھتا تھا مگر قریش کی شاخ بنو زہرہ کاحلیف تھا۔ اخنس کا جواب تھا:میں حلیف ہوں اور حلیف کسی قریشی کوقریش کے خلاف پناہ نہیں دے سکتا۔ اب آپ نے ایلچی کو سہیل بن عمرو کے پاس بھیجا کہ شاید وہ پناہ دے دے، مگر اس نے بھی معذرت کر لی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اب مطعم بن عدی کی طرف پیغام بھجواتے ہیں۔ یہ بھی مکے کا بڑا نمایاں شخص اور قبیلہ بنو نوفل بن عبد مناف کا سردار تھا۔ ایلچی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کر گیا تو اس نے کہا:ٹھیک ہے، وہ تشریف لے آئیں۔ چنانچہ یہ رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطعم کے ہاں بسر فرمائی۔ مطعم نے اپنے بیٹوں اور قوم کو بلایا اور کہنے لگا:تم سب ہتھیار پہن لو اور بیت اللہ کے چاروں کونوں پر کھڑے ہو جاؤ۔ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دی
Flag Counter