Maktaba Wahhabi

254 - 342
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قریب سے گزرے تو اخلاقاً آپ نے گدھے کو روک لیا۔ گدھے کے قدموں سے گرد و غبار اڑا تو عبداللہ بن ابی نے رومال سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ قارئین کو خوب معلوم ہے کہ یہ شخص دل سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید دشمن تھا، اس لیے کہنے لگا:دیکھو میاں! ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر کہنے لگا:محمد! تمہارے گدھے کی بو نے تو مجلس کا سارا مزا کرکرا کر دیا۔ قارئین کرام! عموماً اس قسم کی مجالس میں اگر باہر سے کوئی آدمی آئے تو اسے بڑی خوش دلی سے مرحبا کہا جاتا ہے۔ اس کا استقبال کیا جاتا ہے لیکن عبداللہ بن ابی نے جو الفاظ کہے وہ اس کی بدباطنی کا پتا دیتے تھے۔ ذرا غور کیجیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اخلاق حمیدہ کے مالک تھے کہ عبداللہ کی تلخ باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اہل مجلس کو سلام کہا۔ گدھے سے نیچے اترے اور ان کی مجلس میں تشریف لے آئے، پھر اپنے مخصوص انداز میں لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا۔ دعوتِ توحید پیش کی اور قرآن کریم کی تھوڑی سی تلاوت بھی فرمائی۔ عبداللہ بن ابی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے قرآن کریم سنا تو جل بھن گیا۔ اسے قرآن تو یقینا اچھا لگا مگر ہائے رے حسد اوربغض کی آگ… کہنے لگا:محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! یہ ہمیں ہر جگہ تبلیغ نہ کیا کرو، نہ ہمیں قرآن سنانے کی ضرورت ہے۔ ہاں، اگر کوئی آپ کے گھر آجائے یا آپ سے قرآن کی تلاوت سنانے کے لیے کہے تو بے شک اسے قرآن سنادیا کرو لیکن ہمیں تو تنگ نہ کرو۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ راسخ الایمان مسلمان تھے۔ عبداللہ کی ان گستاخانہ باتوں کو برداشت نہ کر سکے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تشریف لائے اور عرض کی:اللہ کے رسول! آپ بڑے شوق سے ہماری مجالس کے اندر تشریف لائیں، ہمیں وعظ و نصیحت کریں، ہمیں اللہ کا قرآن سنائیں، ہمیں آپ کی گفتگو اورآپ کا قرآن پڑھنا بہت محبوب ہے۔ ایک اور صحابی مجلس میں بیٹھے تھے، وہ عبداللہ بن ابی سے کہنے لگے:اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گدھے کی بو تمھارے جسم کی بدبو سے کہیں بہتر اور افضل ہے۔ مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ عبداللہ بن ابی کے بعض دوست بدتمیزی پر اتر آئے۔ یہودی تواس قسم کے واقعات چاہتے تھے۔
Flag Counter