Maktaba Wahhabi

252 - 342
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ اخلاق ملاحظہ کیجیے۔ آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں کو اٹھایا اور رات کے اندھیرے میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرما رہے ہیں: (اَللّٰہُمَّ اغْفِرلَہُ، اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ رَفِیقِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) ’’اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما اور اے اللہ! قیامت کے روز اسے میرا ساتھی بنانا۔‘‘ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے میں ان کے قریب ہی سو گیا۔ قارئین! اسے کہتے ہیں اعلیٰ اخلاق، اسے کہتے ہیں محبت کہ ایک ساتھی نے کارنامہ انجام دیا ہے تو اس کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر کا ایک حصہ حذیفہ رضی اللہ عنہ پر ڈال دیتے ہیں اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ شان کہ وہ گہری نیند سو رہے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بقیہ وقت بھی نماز پڑھ رہے ہیں، تہجد ادا کر رہے ہیں۔ جب فجر کی اذان ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس ساتھی کو جگا رہے ہیں اور اس کے ساتھ شغل اور مذاق کر رہے ہیں،اس سے اُنس و محبت کا اظہارکر رہے ہیں۔ آئیے پڑھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کو کیا لقب دیا ہے؟ ارشاد فرمایا:(قُمْ یَا نَوْمَانُ قُمْ یَا نَوْمَانُ!) ’’ارے کثرت سے سونے والے اٹھو… کثرت سے نیند کرنے والے اٹھو۔‘‘ قارئین کرام! آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں ہیں مگر اس کے باوجود اپنے صحابہ سے مزاح فرما رہے ہیں۔ ’’نومان‘‘ کا معنی ہے ’’کثرت سے سونے والا۔‘‘ حذیفہ رضی اللہ عنہ اپنے محبوب قائد کی آواز پر اٹھے، نماز ادا کی اور جب دن چڑھا تو دیکھا کہ دشمن میدان خالی کر گیا ہے۔ وہ ناکام ونا مراد ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکا ہے۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان ہے کہ وہ محاذ جنگ پرمسکرا رہے ہیں۔ وہ منصور و مظفر ہو کر مدینہ طیبہ کا رخ کر رہے ہیں۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سلوک اور آپ کا دیا ہوا لقب ’’نومان‘‘ کبھی نہیں بھولا۔، ، صحیح مسلم، حدیث:1788، وصحیح السیرۃ لإبراھیم العلي:279-277، ودلائل النبوۃ للبیہقي:455-449/3۔
Flag Counter