Maktaba Wahhabi

250 - 342
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قریش کی خبر لے کر آؤ تو اب گریز کی کوئی گنجائش نہ رہی ۔ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )!میں کہیں پکڑا نہ جاؤں؟ ارشاد فرمایا:’’تم بالکل پکڑے نہیں جاؤگے۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی کے لیے دعا فرما رہے ہیں:’’اے اللہ! اس کی آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے، اوپر اور نیچے سے حفاظت فرما۔‘‘ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:اس دعا کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میرا سارا خوف دور ہو گیا اور میں نہایت شاداں و فرحاں اپنی مہم پر روانہ ہوا۔کہتے ہیں:جب میں دشمن کی طرف روانہ ہوا تو مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا میں گرم حمام میں چل رہا ہوں، یعنی مجھے ذرا بھی سردی نہیں لگ رہی تھی۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ بغیر کسی رکاوٹ کے دشمن کے لشکر میں پہنچ گئے ہیں۔ ہوا اس قدر تیز تھی کہ اس کے سامنے کوئی چیز ٹھہرتی نہیں تھی۔ تاریکی ایسی چھائی ہوئی تھی کہ کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی تھی فرماتے ہیں:میں آگے بڑھا، ایک جگہ دیکھا کہ آگ کا الاؤ جل رہا ہے۔ ابوسفیان اپنی کمر کو آگ سے سینک رہا ہے ۔ میں بھی اس کے ساتھیوں کے ساتھ الاؤ پر بیٹھ گیا۔ میں نے سنا کہ ابو سفیان اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا ہے:اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھو کہ وہ کون ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنا کوئی جاسوس بھیج رکھا ہو جو ہماری باتیں سن رہا ہو۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نہایت ذہین و فطین اور بر وقت فیصلہ کرنے والے تھے۔ وہ کہتے ہیں:میں نے فوراً اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا:(مَنْ أَنْتَ) ’’تم کون ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا:میں فلاں بن فلاں ہوں۔ میں نے اس سے کہا:خاموش رہو،شکر ہے کہ تم فلاں بن فلاں ہو۔ پھر میں نے ایک اور سے پوچھا:تم کون ہو؟ وہ کہنے لگا:میں فلاں بن فلاں ہوں۔ میں نے اس سے بھی کہا:خاموش رہو۔ اسی طرح میں نے اپنے ارد گرد اور کئی لوگوں سے بھی سوال کیا۔ قارئین کرام! یہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ذہانت اور فطانت تھی کہ انھوں نے فوراً اپنے ارد گرد کے لوگوں سے پوچھا:تم کون ہو؟ ورنہ اگر ان میں سے کوئی ان سے پوچھ لیتا کہ تم کون ہو؟ تو ممکن ہے ان کے بارے میں دشمن کو معلوم ہو جاتا اور ان کا راز فاش ہو جاتا۔
Flag Counter