Maktaba Wahhabi

246 - 342
تھے، آپ کے متبع بن گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرکے جا رہے ہیں۔ کفار قریش نے آپ کا خون مباح قرار دے دیاہے۔ سو سرخ اونٹوں کا انعام کوئی معمولی نہ تھا۔ جرائم پیشہ لوگوں کے لیے تو یہ نہایت خطیر انعام تھا۔ معاذ اللہ ان سے کہا گیا کہ وہ زندہ یا مردہ آپ کو پیش کریں،پھر کتنے تھے جنھوں نے آپ کا پیچھا کیا؟ انعام کے لالچ میں آپ کا پیچھا کرنے والا ایک شخص بریدہ اسلمی بھی تھا۔ یہ اپنی قوم کا سردار تھا۔ ستر ساتھیوں سمیت (کُرَاعُ الْغَمِیم) کے علاقے میں ملتا ہے۔ یہ جگہ مکہ مکرمہ سے کم و بیش 75 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ قریش نے جس بڑے انعام کا اعلان کر رکھا تھا، یہ بھی اس انعام کے لالچ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلا تھا۔ جب یہ شخص قافلۂ حق کے قریب ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:’’تم کون ہو؟‘‘ کہنے لگا:میں بریدہ ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فال نہیں نکالتے تھے مگر بعض الفاظ سے اچھا تفاؤل لے لیا کرتے تھے۔عربی زبان میں برد کے معنی ٹھنڈک کے ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا:(یَاأَبَابَکْرٍ بَرَدَ أَمْرُنَا وَصَلُحَ) ’’ابوبکر! ہمارا کام ٹھنڈا اور درست ہوا۔‘‘ پھر ارشاد فرمایا:(مِمَّنْ أَنْتَ؟) ’’تمھارا تعلق کس قبیلے سے ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا:قبیلہ اسلم سے ہوں۔اسلم چونکہ سلامتی سے ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’ہم سلامت رہے۔‘‘ پھرسوال کیا:’’قبیلہ اسلم کی کس شاخ سے ہو؟‘‘ بریدہ کہنے لگا:بنو سہم سے۔سہم کے معنی حصہ کے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’تیرا حصہ نکل آیا، یعنی تجھ کو اسلام سے حصہ ملے گا۔‘‘ اب بریدہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:آپ کون ہیں؟ ارشاد فرمایا:’’محمد بن عبداللہ، اللہ کا رسول ہوں۔‘‘
Flag Counter