Maktaba Wahhabi

206 - 342
اراشی جب بھی رقم مانگتا، ابوجہل اسے ڈانٹ دیتا۔ قارئین کرام! قریش کے سرداروں کا دستور تھا کہ جب دن اچھی طرح روشن ہو جاتا تو وہ اپنے گھروں سے نکل کر بیت اللہ کا رخ کرتے۔ خانہ کعبہ کے شمال میں دارالندوہ تھا۔ اس کے ارد گرد وہ ٹولیاں بنا کر بیٹھ جاتے۔ اراشی ابو جہل سے مایوس ہو چکا ہے۔ ایک روز وہ دن چڑھے قریش کی ان ٹولیوں کے پاس آکر دہائی دے رہا ہے۔ وہ قریش کے سرداروں سے اپیل کر رہا ہے کہ کون ہے جو ابو الحکم بن ہشام سے میرا حق لے کر دے۔ میں ایک مسافر ہوں، اس نے مجھ سے اونٹ خریدے ہیں مگر اب میرا حق دینے سے انکاری ہے۔ کون ہے جو میری مدد کرے؟ کون ہے جو ابو الحکم سے میرا حق لے کر دے؟ وہ مدد کے لیے پکارتا رہا۔ کفار قریش کی بڑی ٹولی پر سناٹا چھا گیا ہے۔ ابو الحکم جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا لقب دیا تھا، وہ تو مکہ مکرمہ کا سب سے بڑا آدمی ہے۔ کون اس کے منہ لگے؟ کس کی جرأت ہے کہ اس سے مطالبہ کرے۔ اچانک ان میں سے ایک شیطان صفت کو شرارت سوجھی۔ اس نے دیکھا کہ بیت اللہ کے ایک طرف سید ولد آدم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ اس نے مزاحیہ انداز میں ان کی طرف اشارہ کیا اور اراشی سے کہنے لگا:کیا تم چاہتے ہو کہ کوئی شخص ابوجہل سے بات کرے اور تمھیں حق لے کر دے؟ وہ کہنے لگا:میں تو ایسے بندے کی تلاش میں ہوں۔ قریشی بولا:تو پھر ان کے پاس چلے جاؤ۔ وہی تمھیں اس سے حق لے کر دے سکتے ہیں۔ اراشی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہے۔ روشن چہرے والی عظیم شخصیت کو اپنی داستان مظلومیت سنا رہا ہے۔ عرض کررہا ہے کہ آپ میری مدد کریں اور ابو الحکم سے میرا حق دلا دیں۔
Flag Counter