Maktaba Wahhabi

201 - 342
ابوسفیان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ندامت بھرے انداز میں مندرجہ بالا کلمات کہہ رہے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی کے کلمات، ندامت اور ان کی معذرت سنی تو آپ کا دل پسیج گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو ملاحظہ کیجیے کہ آپ اس کے جواب میں فرما رہے ہیں: ﴿لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَومَ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ أَرْحَمُ الرٰحِمِیْن﴾ ’’آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، اللہ تمھیں بخش دے، وہ ارحم الراحمین ہے۔‘‘ اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی اعلان کر رہا ہے: (إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ قَدْ رَضِيَ عَنْ أَبِي سُفْیَانَ فَارْضَوْا عَنْہُ) ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان سے راضی ہوگئے ہیں، تم سب بھی اس سے راضی ہو جاؤ۔‘‘ ابوسفیان بن حارث شاعر تھا، اس نے اس وقت اشعار پڑھے جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ اخلاق کی گواہی تھی، کہنے لگے: (ہَدَانِي ہَادٍ غَیْرُ نَفْسِي وَدَلَّنِي عَلَی اللّٰهِ مَنْ طَرَّدْتُ کُلَّ مُطَرَّدِ) ’’میں ازخود تو ہدایت نہ پاسکا، کسی اور نے مجھے ہدایت کی راہ دکھائی۔ اللہ کا راستہ مجھے اس شخص نے بتایا جسے میں نے ہر موقعے پر بری طرح جھٹک دیا تھا۔‘‘ یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سینے پر ضرب لگائی اور فرمایا:’’تم نے ہر موقعے پرمیری بات ماننے سے انکار ہی کیا تھا۔‘‘ قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کا، آپ کی معافی کا اس قدر اثر ہوتا ہے کہ قبول اسلام کے بعد ابوسفیان حیا اور خجالت کے سبب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ اقدس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھ پاتے تھے۔ غزوئہ حنین کے موقع پر یہی ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے جنھوں نے نہایت نازک وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت بھی دی تھی۔ ، الرحیق المختوم:244، والسیرۃ النبویۃ للصلابي 70/2، 71، والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام:647-646/2۔
Flag Counter