Maktaba Wahhabi

181 - 342
غزوئہ حنین کے آغاز میں مسلمانوں کو غیر متوقع حالات کے باعث ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، مگر اللہ کے رسول کی بہادری ملاحظہ کیجیے کہ جب لوگ دوڑ رہے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ خچر پر سوار اسے ایڑ لگا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں: (أَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ) ’’میں نبی ہو ں اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ اس وقت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی۔ آپ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے رکاب تھام لی۔ دونوں خچر کو روک رہے ہیں کہ کہیں تیزی سے آگے نہ بڑھ جائے۔ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نہایت بلند آواز سے لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ او بیعت رضوان والو! کہاں ہو؟ لوگ اس آواز پر بھاگے چلے آئے۔ چند ہی منٹوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بہت سے جاں نثارجمع ہو گئے۔ انہوں نے دشمن کا اس طرح سامنا کیا کہ فریقین کے درمیان شدیدجنگ شروع ہو گئی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زمین سے ایک مٹھی بھر مٹی لے کر دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرما رہے ہیں:(شَاہَتِ الْوُجُوہُ) ۔ ’’(دشمنوں کے) چہرے بگڑ جائیں۔‘‘ یہ مٹھی بھر مٹی اس طرح پھیلی کہ دشمن کا کوئی آدمی ایسا نہ تھا جس کی آنکھ اس سے بھر نہ گئی ہو۔ اس کے بعد دشمن کی قوت ٹوٹتی چلی گئی اور اسے شکست فاش ہوتی ہے۔ دشمن بھاگ رہا ہے۔ ایک حصہ طائف کی جانب اور ایک نخلہ کی طرف اوطاس کی راہ لے رہا ہے۔ یہاں ایک معمولی جھڑپ سے ہی دشمن پسپا ہو گیا۔معروف سردار درید بن صمہ یہاں قتل ہو ا۔ مسلمانوں کو جو مال غنیمت بہت وافر مقدار میں ملا ہے، آئیے اس کی تفصیل جانتے ہیں: قیدی چھ ہزار(6000)‘ اونٹ چوبیس ہزار(24000)‘ بکریاں چالیس ہزار(40000)سے زیادہ‘ چاندی چار ہزار(4000) اوقیہ یعنی کم و بیش 152کلوگرام۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جمع کرنے کا حکم دیا اور جعرانہ کے مقام پر اسے مسعود بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں دے دیا۔ اور خود غزوئہ طائف کے لیے روانہ ہو گئے ۔، ، صحیح البخاري، حدیث:4315، 4317،4323، وصحیح مسلم، حدیث:1777-1775، والرحیق المختوم، ص:424-422، والسیرۃ النبویۃ لمہدي رزق اللّٰہ:156-161/2۔
Flag Counter