Maktaba Wahhabi

179 - 342
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور انھیں اس بدو کی گفتگو اور ہرزہ سرائی سے مطلع کر رہے ہیں۔ اللہ کے رسول پر یہ بے بنیاد الزام تھا۔ آپ سے بڑھ کر عدل و انصاف کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ چہرئہ اقدس سرخ ہو گیا۔ ارشاد فرمایا: (فَمَنْ یَّعْدِلُ إِنْ لَمْ یَعْدِلِ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ) ’’اگر اللہ اور اس کا رسول عدل و انصاف نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟‘‘ اور پھر اس صابر و شاکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یاد کیا۔ اور آپ کی تواضع کو دیکھیے، ارشاد فرما رہے ہیں: (یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوسٰی، قَد أُوذِيَ بِأَکْثَرَ مِنْ ہٰذَا فَصَبَرَ) ’’اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے، ان کو اس سے بھی زیادہ ستایا گیا مگر انھوں نے صبر کیا۔‘‘ قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم، عفو و در گزر کو ملاحظہ کیجیے۔ یہ آپ کا اعلیٰ اخلاق تھا کہ آپ نے یہ حکم نہیں دیا:جاؤ! اس قسم کی باتیں کرنے والے کو بلا کر لاؤ۔ وہ تو واجب القتل ہے، اسے تو جیل میں ڈالنا چاہییبلکہ یہ الزام لگانے والے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بھی نہیں کہا۔ ادھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد اس قسم کی بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہنچاؤں گا۔، ، صحیح البخاري، حدیث:3150، وصحیح مسلم، حدیث:1062، و السیرۃ النبویۃ للصلابي:568/2۔
Flag Counter