Maktaba Wahhabi

160 - 342
’’اللہ تعالیٰ! ہمارے لیے عظیم ہستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی رکھے۔ یہ وہ ہستی ہیں جن کے ساتھ بغض و عناد نے تجھے نجران کے علاقے میں لا پھینکا ہے۔ اے ابن زبعری! اللہ تعالیٰ تجھے دائمی ذلت آمیز زندگی، اہانت آمیز سلوک اور نحوست میں رکھے۔‘‘ جب عبداللہ بن زبعری تک یہ اشعار پہنچے تو وہ سخت تلملایا۔ اپنے معاملات کا کئی بارجائزہ لیا اور غور و فکر کیا کہ میں کس شخصیت کی مخالفت کرتا رہا اور کیوں کرتا رہا؟ اپنے ماضی میں جھانکا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ اخلاق یاد آگیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے اس بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا تو اس کا ذہن صاف ہو گیا۔ اللہ نے ہدایت دی اور اس نے اسلام لانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر وہ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہو گیا۔مکہ مکرمہ پہنچا تو سیدھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ گزشتہ زندگی پر ندامت کا اظہار کیا اور اسلام قبول کر لیا۔ ساتھ ہی عرض کر رہا ہے کہ اللہ کے رسول! میں نے اپنی گزشتہ زندگی میں آپ کے اور اسلام کے متعلق عداوت کا جس طرح بھی اظہار کیا، اس کی معافی کی دعا فرما دیں۔ ادھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان ہے کہ آپ اس نئے ساتھی کو تسلی دے رہے ہیں۔ اسے پرانے گناہوں پر عار نہیں دلا رہے۔ فرمایا: ’’اسلام گزشتہ تمام کوتاہیوں اور گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔‘‘ اللہ کے رسول عبداللہ کو اپنے قریب کر لیتے ہیں۔ اس سے محبت بھرا سلوک فرماتے ہیں اور ایک کپڑوں کا جوڑا بھی عنایت فرماتے ہیں۔ مؤرخین نے بالاتفاق ذکر کیا ہے کہ عبداللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ سلوک سے اس قدر متأثر ہوا کہ اس نے بہت عمدہ اشعار کہے جن میں وہ اللہ کے رسول کی مدح بیان کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزشتہ دور میں کہے ہوئے اشعار پر ندامت کا اظہار کرتا ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ بڑے عمدہ شاعر تھے۔ انھوں نے اسلام لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں بڑی تعداد میں ایسے اشعار کہے جن کے ذریعے وہ حالت کفر میں کہے ہوئے اشعار کی تلافی کردیتے ہیں۔، ، أسدالغابۃ:239/3، والاستیعاب:450، والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام:61/4۔
Flag Counter