Maktaba Wahhabi

152 - 342
بلال رضی اللہ عنہ نے کہا:اللّٰہ اکبر ابومحذورہ نے بھی کہا:اللّٰہ اکبر بلال رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے کیمپ میں اذان دے رہے تھے۔ ابومحذورہ اپنی بکریوں میں کھڑا ان کلمات کو اسی انداز میں دہراتا جا رہا تھا۔ ابومحذورہ کی آواز بڑی خوبصورت اور صاف تھی۔ خوش قسمتی اس کی راہ دیکھ رہی تھی، ہوا یہ کہ اس کی اذان کی آواز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی جا پہنچی۔جب اس نے اذان ختم کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما کو حکم دیا:’’جس لڑکے نے ابھی ابھی اذان دی ہے، اسے میرے پاس بلا کر لاؤ۔‘‘ وہ وادی کے دوسری طرف گئے اور بکریاں چرانے والے ان لڑکوں کو لے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لڑکوں سے پوچھا:’’ابھی ابھی تم میں سے کس نوجوان نے اذان کے کلمات دہرائے تھے؟‘‘ لڑکے خجالت اور حیا کے مارے خاموش رہے۔ اللہ کے رسول کی حکمت اور محبت دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ڈانٹنے کے بجائے ایک سے کہا:’’تم اذان سناؤ۔‘‘ اس نے اذان دینا شروع کی مگر اس کی آواز اچھی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سے کہا:اب تم اذان دو۔‘‘ یہ آواز اس کی بھی نہ تھی جس کی سماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ اب آپ نے تیسرے لڑکے سے فرمایا:’’تم اذان دو۔‘‘ اس نے اذان دینا شروع کی۔ اس کی آواز بڑی خوبصورت تھی۔ اس کنیت ابو محذورہ تھی۔ اسی نے پہلے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی نقل اتاری تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے استفسارفرمایا:’’ ابھی ابھی تمہی نے اذان دی تھی؟ ‘‘ ابومحذورہ نے اثبات میں سر ہلا یا اور کہنے لگا:جی ہاں! وہ میں ہی تھا۔ ابومحذورہ کے دوسرے ساتھی تو بھاگ گئے، مگر ابو محذورہ کوبیٹھے رہنے کا حکم ہوا۔ یہ ابھی تک مسلمان نہ ہوا تھا۔ اسے یہ خوف تھا کہ کہیں میرے قتل کا حکم جاری نہ ہوجائے۔ کیونکہ اس نے تو مذاق میں بلال رضی اللہ عنہ کی نقل اتاری تھی مگر رحیم وشفیق اور اعلیٰ اخلاق والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابومحذورہ کی طرف اپنے مبارک ہاتھ کوبڑھاتے ہوئے اس کا عمامہ اتارا اور اس کے لیے دعا فرمائی:(اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیہِ وَاہْدِہِ إِلَی الْإِسْلَامِ) ’’اے اللہ! اسے برکت عطا فرما اور اسے اسلام کی ہدایت عطا فرما۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا
Flag Counter