Maktaba Wahhabi

103 - 342
قارئین کرام! اسی پر بس نہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تادیباً سعد رضی اللہ عنہ سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کو دے دیا۔ اس طرح آپ نے ایک ایسا فیصلہ فرمایا جس سے نہ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ناراضی ہوئی نہ دیگر انصار کو۔ یہاں پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو ملاحظہ کریں کہ آپ نے جھنڈا کسی مہاجر کے سپرد نہیں کیا بلکہ انصاری سے لیا اور اس کے بیٹے کو دے دیا۔ انسانی فطرت اور کمزوری ہے کہ وہ صرف اپنے بیٹے کو خود سے افضل اور بہتر دیکھ کر مطمئن رہ سکتا ہے کسی اور کو نہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزر گئے تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے کہا:اب دوڑ کر اپنی قوم کے پاس جاؤ اور اسے سمجھاؤ۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نہایت تیزی سے مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں۔ بلند آواز سے اعلان فرمایا:قریش کے لوگو! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمھارے پاس اتنا بڑا لشکر لے کر آئے ہیں کہ کسی میں اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے۔ اور جو ابوسفیان کے گھر میں گھس جائے، اسے امان ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اور پالیسی کامیاب رہی ہے۔ آپ نہیں چاہتے کہ اس بلد حرام میں خوں ریزی ہو۔ مشرکین نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بات کو مان لیا ہے۔ اسلامی لشکر مکہ مکرمہ میں بغیر قتال اور خوں ریزی کے داخل ہو رہا ہے۔ صرف سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا مکہ مکرمہ کے چندسر پھروں سے معمولی سا مقابلہ ہوتا ہے۔ خندمہ کے علاقے میں جب بنو بکر اور بنو ہذیل کے آدمی قتل ہوئے تو باقی بھاگ گئے۔ کوئی پہاڑ پر چڑھ گیا، کسی نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا۔ اس روز صفوان بن امیہ جدہ کی طرف اور عکرمہ بن ابی جہل یمن کی طرف بھاگ گیا۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم بلا مزاحمت مکہ مکرمہ کو فتح کر لیتے ہیں۔ (صحیح البخاري، حدیث:4280، والسیرۃ النبویۃ لمہدي رزق اللّٰہ:565-563، والبدایۃ والنہایۃ:542-535/4)
Flag Counter