Maktaba Wahhabi

41 - 211
((إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَوْجَبَ لَھَا بِہَا الْجَنَّۃَ وَأَعْتَقَہَا بِہَا مِنَ النَّاِر))[1] ’’اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کر دی اور اسے جہنم سے آزاد کر دیا۔‘‘ بچیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا عالم یہ تھا کہ مسند احمد کی روایت ہے: ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إِذَا رَجَعَ مِنْ غَزَاۃٍ أَوْ سَفَرٍ أَتٰی الْمَسْجِدَ فَصَلّٰی فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ ثَنَّیٰ بِفَاطِمَۃَ))[2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوے یا سفر سے لوٹتے تو سب سے پہلے مسجد میں آتے اور اس میں دو رکعت ادا فرماتے، پھر اپنی لختِ جگر نورِ نظر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ فَاطِمَۃَ بُضْعَۃٌ مِنِّیْ یُرِیْبُنِیْ مَا أَرَابَہَا وَیُؤْذِیْنِيْ مَا آذَاہَا))[3]’’فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔جو چیز اُسے شک میں ڈالتی ہے، وہ مجھے بھی مشکوک لگتی ہے اور جو چیز اُسے تکلیف پہنچاتی ہے، وہ میرے لیے بھی اذیت ناک ہے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو بیٹی سے اتنا پیار تھا، لیکن افسوس! ہمارے معاشرے میں بھی بیٹوں اور بیٹیوں میں تفریق اور بچوں کو بچیوں پر ترجیح دینے کی وہی جہالتِ کبریٰ موجود ہے، جو کبھی عربوں میں تھی۔کتنے لوگ ایسے ہیں کہ بیٹے کی پیدایش پر تو لڈّو بانٹتے پھرتے ہیں، لیکن لڑکی کی پیدایش پر ان کا منہ لٹک جاتا
Flag Counter