Maktaba Wahhabi

42 - 211
ہے، بیویوں سے روٹھ جاتے ہیں، نہ صرف روٹھتے ہیں، بلکہ کئی ایسے ہیں، جنھوں نے لڑکیوں کی پیدایش پر اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ہزاروں بلکہ لاکھوں وہ ہیں، جنھوں نے حالتِ حمل میں اپنی بیویوں کی طبّی جانچ پڑتال()کروائی اور جب انھیں یہ پتا چلا کہ آنے والا مہمان لڑکا نہیں بلکہ لڑکی ہے تو انھوں نے اپنی قساوتِ قلبی سے حمل ساقط کروا دیا۔کثرت سے ایسے واقعات میں تو اَن گنت عورتوں کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوگئیں۔ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچہ ہو یا بچی، ہر ایک کو اللہ کی امانت اور اس کا تحفہ سمجھتے ہوئے قبول کرلے، کیونکہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِِنَاثًا وَّیَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًا﴾[الشوریٰ:۴۹، ۵۰] ’’وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہے لڑکے، جسے چاہتا ہے لڑکے لڑکیاں ملا جُلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔‘‘ نومولود کے کان میں اذان کہنا: بچے کی ولادت کے بعد سب سے پہلا یہ کام کیا جائے کہ کسی نیک، دین دار شخص سے دائیں کان میں اذان کہلوائی جائے، کیونکہ ایک حدیث جس کی صحت و ضعف میں اختلاف ہے، میں یہ بات وارد ہوئی ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس پر عمل ثابت ہے۔[1]
Flag Counter