Maktaba Wahhabi

164 - 211
لباس ڈھیلا ڈھالا اور چہرہ، ہاتھ اور سارے جسم کو چھپانے والا ہو، اتنا چُست نہ ہو کہ جسم چھپنے کے باوجود نمایاں اور لوگوں کو راغب کرنے والا ہو، نظریں ہٹانے والا ہو نہ کہ نظریں جمانے والا، نقش و نگار والا اور زرق برق نہ ہو، لیکن افسوس کہ آج برقعے کے نام پر جو کالا لباس پہنا جاتا ہے، وہ اس قدر دلکش، جاذبِ نظر، خوب صورت، اسٹائلش، پرنٹڈ، چمکدار، رنگیلا بھڑکیلا اورکچھ نہیں تو اس کے اوپر سنہری ڈوریاں، خوبصورت اسٹیکرز، گولڈن بٹن اور خوبصورت، دلکش اور دیدہ زیب اسکارف، پردے کا پردہ اور ساتھ ہی دعوتِ نظارہ۔غرض برقعہ بجائے ستر و حجاب اور اخفاے زینت کے، خود اظہارِ زینت کا ایک بڑا وسیلہ بن گیا ہے۔بعض اہلِ علم نے تو ایسے برقعے کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی زینت کو چھپانے کے لیے اس پر ایک اور برقعے کی ضرورت ہے۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو سختی سے پردے کا پابند بنائیں، انھیں خوشبو لگا کر چلنے، لوچ دار، شیریں آواز سے بات کرنے، پاؤں کی جھنکار اور دلکش اداؤں سے روکیں۔شرعی حجاب کی خوبیاں ان کے سامنے بیان کریں اور انھیں یہ بتلائیں کہ جب تک وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گی، اس وقت تک صحیح معنوں میں مسلمان بھی نہیں بنیں گی۔ اسلام کے قانونِ حجاب کی برکات: یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کے قانونِ حجاب کی کشش نے کئی غیر مسلم خواتین کو مسلمان بنایا ہے۔’’نو مسلم خواتین کے مشاہدات‘‘ کے نام سے چھپنے والی کتاب میں محترمہ خولہ نکاتا(جاپان)لکھتی ہیں: ’’منی سکرٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ کو میری ضرورت ہے تو
Flag Counter