Maktaba Wahhabi

57 - 211
٭ ایسے ناموں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے، جن میں بے جا تکلّف، تصنّع اور اشتیاق پایا جاتا ہے، جیسے لڑکیوں کے نام تمنّا، آرزو، ارمان، حور وغیرہ رکھنا۔ ٭ ایسے ناموں سے بھی باز رہیں، جن عورتوں کے ناموں میں مردوں کے ناموں سے اور مردوں کے ناموں میں عورتوں کے ناموں سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ ٭ اسی طرح ایسے نام جن میں غیر مسلموں کے ناموں کا شبہہ ہوتا ہے، نہ رکھے جائیں، لڑکوں کے ناموں میں مثلاً:سورج، کِرن وغیرہ اور لڑکیوں کے ناموں میں:قسمت، ریکھا، نیہا، وغیرہ۔ کنیت والے نام: بچوں کے نام کنیت والے بھی رکھ سکتے ہیں، تاکہ ان میں بلند کرداری، اعلیٰ ظرفی اور علو ہمتی کا احساس پیدا ہو، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ خلیق تھے۔میرے ایک بھائی کا نام ابو عمیر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کے پاس آتے تو فرماتے: ((یَا أَبَا عُمَیْرٍ! مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ؟))[1] ’’اے ابو عمیر! تمھارے ممولے(ایک پرندہ جس سے وہ کھیلا کرتے تھے، وہ مر گیا تو فرمایا)نے کیا کیا ہے؟‘‘ ٭ کنیت کے لیے ضروری نہیں کہ آدمی بچے ہونے کا انتظار کرے، بچے نہ ہونے کے باوجود آدمی اپنی کنیت رکھ سکتا ہے۔اس طرح کی بے شمار مثالیں حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملتی ہیں، مثلاً:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی کنیت ہی سے معروف ہیں، جب کہ بکر نام کی آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
Flag Counter