Maktaba Wahhabi

38 - 211
یہ بچی بچپن ہی سے اپنے پروردگار کی عبادت میں مشغول ہوگئی، اس پر اللہ کی عنایتوں کا عالم یہ تھا کہ یہ بچی زمین پر سجدے کرتی تو عرش والا اس کے کھانے کے لیے جنت سے میوے بھیجا کرتا تھا اور وہ پھل بھی بے موسم ہوتے، گرمیوں کے پھل سردیوں میں آتے اور سردیوں کے گرمیوں میں۔ جب حضرت زکریا علیہ السلام نے، جو حضرت مریم کے خالو لگتے تھے، پوچھا کہ ’’بیٹی! تمھارے پاس یہ کھانے پینے کی چیزیں کہاں سے آتی ہیں؟‘‘ تو معصوم بچی نے جواب دیا کہ ’’خالو جان! یہ رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘ حضرت مریم علیہا السلام کی اس بات نے حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں یہ بات ڈالی کہ جو اللہ بے موسم پھل دے سکتا ہے تو وہ بے موسم اولاد کیوں نہیں دے سکتا؟ اگرچہ میرا اولاد پیدا کرنے کا موسم ختم ہوچکا اور میں بڑھاپے کے انتہائی دور کو پہنچ چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ بھی ہے۔تاہم انھوں نے رب العالمین سے اولاد کے لیے فریاد کی اور فرمایا: ﴿رَبِّ اِنِّیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَکُنْم بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا﴾[مریم:۴] ’’میرے رب! میری ہڈیاں تک کمزور ہوچکی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں تجھ سے دعا مانگ کرنا مراد رہا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی فریاد قبول فرمائی اور ایک لڑکے کی خوش خبری عطا فرمائی۔اس کا نام بھی خود ہی یحییٰ(علیہ السلام)تجویز کیا اور اس نام کی یہ خصوصیت
Flag Counter