Maktaba Wahhabi

175 - 211
انہیں میں سے امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ بھی ہیں۔بچپن میں آپ کی آنکھوں کی بینائی ختم ہوگئی تھی۔تمام حکیموں نے جواب دے دیا تھا کہ اس لڑکے کی بصارت کبھی واپس نہیں آسکتی۔آپ کی والدہ ماجدہ تہجد گزار اور شب بیدار خاتون تھیں۔ہر نماز میں نہایت ہی خشوع و خضوع اور آہ وزاری کے ساتھ اپنے بچے کے لیے اللہ تعالیٰ سے بینائی کی طلب گار رہتی تھیں۔ایک رات تہجد سے فارغ ہو کر اپنے بیٹے کی بصارت کے لیے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگیں اور پھر تھوڑی دیر کے لیے اسی جگہ پر لیٹ گئیں۔خواب میں دیکھتی ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: ’’اے امّ محمد! اللہ تعالیٰ نے تیری کثرتِ دعا اور آہ و زاری کے سبب تیرے بچے کو بینائی عطا فرما دی ہے۔‘‘[1] جب اٹھ کر دیکھتی ہیں تو واقعی بیٹے کی بصارت لوٹ آئی تھی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی آنکھوں میں اس قدر روشنی عطا فرمائی کہ چاندنی راتوں میں لکھتے اور پڑھتے تھے، حتّٰی کہ چاندنی راتوں ہی میں آپ نے اپنی کتاب ’’التاریخ الکبیر‘‘ کا مسودہ تحریر فرمایا۔[2] بد دعا کے اثرات انتہائی دور رس ہوتے ہیں۔اس کے اثر سے آبادیاں ویرانے، دولت وثروت کے جھولوں میں جھولتے ہوئے خاندان فقیر و محتاج، تندرست اور توانا جسم بیماریوں کا شکار ہوکر ہڈیوں کا پنجر بن جاتے ہیں، اسی لیے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
Flag Counter