مندرج ہوں ان کے لیے صدقہ وزکاۃ درست اور دیگر طلباء اور مریضوں کے لیے صدقہ وزکاۃ نادرست کما ہو مدلول کلمۃ﴿إِنَّمَا الَّتِیْ ہِیَ لِلْحَصْرِ وَالْقَصْرِ ، فَرَحِمَکُمُ اللّٰهِ الَّذِیْ قَالَ : إِنَّہَا تَرْمِیْ بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ﴾ رہا قربانی کی کھالوں والا معاملہ تو افضل اور بہتر ہے کہ انہیں صدقہ کر دیا جائے کیونکہ حدیث میں ہے علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں﴿أَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم أَنْ أَتَصَدَّقَ بِجِلاَلِ الْبُدْنِ الَّتِیْ نَحَرْتُ وَبِجُلُوْدِہَا﴾1 [حکم دیا مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں نے جو قربانیاں کی ہیں ان کی جلیں اور کھالیں صدقہ کروں] اور صدقے کے مصارف پہلے بیان ہو گئے ہیں ویسے قربانی کی کھالیں قربانی کا حصہ ہیں اس اعتبار سے ان کے مصارف قربانی والے بنتے ہیں ۔ ۱۷/۶/۱۴۲۰ ھ س: فقراء مساکین کی موجودگی میں قربانی کی کھالوں کو عید گاہ میں مٹی ڈالوانے اور چار دیواری کرانے پر صرف کرنا قرآن وحدیث کی روشنی میں کیسا ہے ؟ خالد جاوید کوٹلی دلباغ رائے ضلع گوجرانوالہ ج: صحیح مسلم ص ۴۲۴ ج۱ میں ہے :﴿أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم أَمَرَہُ أَنْ یَقُوْمَ عَلَی بُدْنِہِ وَأَمَرَہُ أَنْ یَّقْسِمَ بُدْنَہُ کُلَّہَا لُحُوْمَہَا وَجُلُوْدَہَا وَجِلاَلَہَا فِی الْمَسَاکِیْنِ ، وَلاَ یُعْطِیْ فِی جِزَارَتِہَا مِنْہَا شَیْئًا﴾2 اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال فرمائیں ، انہیں حکم دیا کہ ان قربانیوں کے گوشتوں ، کھالوں اور جلوں کو مساکین میں تقسیم فرما دیں اور ان کی جزارت (ذبح کرنے ) کی اجرت میں ان قربانیوں سے کوئی چیز نہ دیں ۔ ھذا ما عندی و اللّٰه اعلم ۲۶/۱۰/۱۴۱۹ ھ س: کیا عقیقہ کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کیونکہ مجھے کسی نے بتایا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور کیا چھ سات لڑکے لڑکیوں کا عقیقہ ایک ہی گائے یا کوئی بڑا جانور لے کر کیا جا سکتا ہے کہ نہیں اور کیا عقیقہ کے لیے مُسِنَّہ لازمی ہے کہ نہیں ؟ محمد امجد آزاد کشمیر ج: صحیح بخاری ص۸۲۲ ج۲ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :﴿مَعَ الْغُلاَمِ عَقِیْقَۃٌ فَأَہْرِیْقُوْا عَنْہُ دَمًا ، وَأَمِیْطُوْا عَنْہُ الْأَذَی﴾[ ہر پیدا ہونے والے لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے اس کی طرف سے جانور ذبح کرو اور اس سے ایذا کو دور کرو] گائے ، اونٹ اور بھینس کا عقیقہ درست نہیں کیونکہ ترمذی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :﴿عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ ، وَعَنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ﴾3 [لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ذبح کرو عقیقہ میں اور لڑکی کی طرف سے ایک] اور شاۃ میں صرف بھیڑ اور بکری کی جنس آتی ہے گائے اور اونٹ شاۃ میں شامل نہیں تو بڑے جانور کو ایک لڑکے یا لڑکی کے عقیقہ میں بھی ذبح نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی چھ سات لڑکے لڑکیوں کے عقیقہ میں ذبح کیا جا سکتا ہے اونٹ اور گائے کے عقیقہ کے متعلق ایک روایت پیش کی جاتی ہے مگر وہ کمزور ہے عقیقہ کے جانور کے لیے مسنہ (دو دانتا یا اس کے اوپر |