سکے آیا ان کا دعویٰ ’’نفس تقلید کا وجوب‘‘ قرآن کریم اور حدیث شریف سے ثابت ہوتا بھی ہے یا نہیں ؟
ابن عبدالحق بقلمہ سرفراز کالونی جی ٹی روڈ گوجرانوالہ۳ذوالقعدہ ۱۴۰۱ ھ
حضرت القاضی (۵)
صرف پوچھنا یہ ہے کہ جو آدمی خود ان مثالوں کا علم نہیں رکھتا اس کے لیے مندرجہ ذیل تین شقوں میں حصر عقلی ہے یا نہیں۔ ۱۔ عمل واجب نہ ہو ۔ ۲۔ خود سمجھ کر عمل کرے ۔ ۳۔ کسی اہل علم کی تقلید میں عمل کرے ۔ ہم تیسری شق کو لیتے ہیں آپ چوتھی شق نکال کر حصر عقلی کو توڑیں یا ان تین شقوں میں سے تیسری کو چھوڑ کر دکھائیں کہ کیا کرے جب تک آپ اس کا جواب نہ دیں میں وقت ضائع نہیں کروں گا ۔ شمس الدین
حضرت الحافظ (۵)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جناب ماسٹر صاحب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے بار بار مطالبہ کرنے کے بعد حضرت قاضی صاحب نے اپنی چوتھی تحریر میں تقلید اور واجب کے معانی بیان کیے تھے چنانچہ بندہ نے ان کے بیان کردہ تقلید کے معنی پر پانچ اور واجب کے معنی پر دو کل سات سوالات وارد کیے تھے تاکہ حضرت قاضی صاحب ان سات سوالات کا جواب دے کر اپنے بیان کردہ معانی کی تنقیح فرما دیں یا پھر ان سوالات کے لاجواب ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے تقلید اور واجب کے صحیح معانی بیان کر دیں کہ بات آگے چل سکے مگر انہوں نے ان دونوں مبنی بر انصاف صورتوں سے کوئی سی صورت بھی اختیار نہیں فرمائی بلکہ انہوں نے اپنی اس پانچویں تحریر میں اپنی پہلی تحریر میں لکھی ہوئی بات کو ایک نئے انداز میں پیش کر دیا ہے تو ان کی اس پانچویں تحریر کا جواب لکھنے سے پہلے گذشتہ سات سوالات کو اختصاراً دہرا دینا مناسب معلوم ہوتا ہے ہو سکتا کہ قاضی صاحب اب ہی ان کا جواب لکھ دیں چنانچہ وہ سات سوالات نیچے دیکھئے۔
(۱)حضرت قاضی صاحب کے معنی میں جس چیز کا اثبات ہے ابن ہمام حنفی کے معنی میں اس کی نفی تو لامحالہ ان دو معنوں سے ایک معنی نا درست ہے ۔ تو اب حضرت قاضی صاحب ہی فرمائیں آیا ان کا اپنا معنی درست ہے یا ابن ہمام حنفی کا ؟
(۲)حضرت قاضی صاحب کا معنی تو تمام مجتہدین سمیت پوری امت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے حالانکہ کوئی مجتہد مقلد نہیں ہوتا اور نہ ہی ساری امت مسلمہ مقلد ہے اس لیے ان کا یہ معنی کیونکر درست ہو سکتا ہے ؟
|