وجہ یہ ہے کہ سرر جمع سرۃ کی ہے اور سرۃ درمیان کو کہتے ہیں اور ایام بیض کے روزوں کا مندوب ہونا اس کی تائید کرتا ہے اور وہ ماہ کا درمیان ہے اور ماہ کے آخر کے بارے کوئی ندب وارد نہیں ہوا بلکہ اس میں خاص نہی وارد ہوئی ہے اور وہ شعبان کا آخر ہے جو رمضان کی وجہ سے اس کے روزے رکھے اور امام نووی نے اس کو ترجیح دی ہے کیونکہ امام مسلم نے اس روایت کو علیحدہ بیان کیا ہے جس میں اس ماہ کے سرۃ کا لفظ ہے باقی روایات سے اور اس کے بعد وہ روایات لائے ہیں جن میں ایام بیض کے روزوں کی ترغیب ہے اور وہ ماہ کا درمیان ہے جیسا کہ گذر چکا لیکن حدیث کے تمام طرق میں میں نے اس لفظ کو نہیں دیکھا جس لفظ سے اس نے ذکر کیا ہے اور وہ سرۃ ہے بلکہ وہ احمد کے پاس دووجہوں سے لفظ سرار کے ساتھ ہے اور اس نے کئی طرق سے سلیمان التیمی سے بیان کیا ہے بعض میں سرر ہے اور بعض میں سرار اور یہ دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد ماہ کا آخر ہے ] اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب منعقد فرمایا ہے بَابُ الصَّوْمِ فِیْ آخِرِ الشَّہْرِ جس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری بھی سرر کا معنی آخر ہی کرتے ہیں نہ کہ وسط یا اول پھر بخاری کی تبویب سے واضح ہے کہ وہ شعبان کی تخصیص کے بھی قائل نہیں یاد رہے پندرھویں شعبان کے متعلق روایت ’’قُوْمُوْا لَیْلَہَا وَصُوْمُوْا نَہَارَہَا‘‘ [رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو ] کمزور ہے۔ ۲۸/۸/۱۴۱۴ ھ اعتکاف کا بیان س: عرض یہ ہے کہ کراچی میں ایک مولوی صاحب نے جو کہ مسلکاً اہل حدیث ہے ایک بڑا فتنہ کھڑا کر دیا ہے جس سے لوگ پریشان ہیں رمضان المبارک میں اعتکاف بیٹھنے سے متعلق یہ تحریر ان کی لکھی ہوئی ہے ایک عدد فوٹو کاپی آپ کو ارسال کر رہا ہوں اس کو آپ غور سے پڑھنے کے بعد مناسب جواب تحریر فرمائیں اور جواب مفصل ہو تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں جو انتشار پھیل چکا ہے وہ درست ہو جائے اوراگر واقعی اعتکاف کا طریقہ کار وہی ہے جو انہوں نے تحریر کیا ہے توتصفیہ کیا جائے اور اتفاق کیا جائے ؟ محمد حسن عسکری بڑی مسجد دہلی کالونی گزری روڈ کراچی نمبر۶ اعتکاف شروع کا صحیح طریقہ اما بعد ہر قسم کی نیکی وعبادت کے لیے بنیادی طور پر دو شرطیں انتہائی ضروری ہیں اول یہ کہ عبادت خالصۃً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا جوئی کے لیے کی جائے اور عبادت کرنے کا طریقہ عین سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو ، گو کہ اکثر لوگ عبادت کرتے تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کے لیے ہیں مگر آپ کے امر کی قطعاً فکر نہیں کرتے یا ضرورت محسوس نہیں کرتے |