ج: صورت مسؤلہ میں بیوی متوفاۃ کے شوہر کو نصف ملے گا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَلَکُمْ نصْفُ مَا تَرَکَ أَزْوَاجُکُمْ إِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّّہُنَّ وَلَدٌ﴾1[اور تمہارا ہے آدھا مال جو کہ چھوڑ مریں تمہاری عورتیں اگر نہ ہو ان کی اولاد] اور تین بہنوں کو دو تہائی ملے گا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿فَإِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ﴾2[پھر اگر بہنیں دو ہوں تو ان کو پہنچے دو تہائی اس مال کا جو چھوڑ مرا] اور معلوم ہے کہ تین بہنوں کا حکم وہی ہے جو دو بہنوں کا حکم ہے رہا اس صورت مسؤلہ میں بہنوں کو عصبہ بنانا تو اس کی کتاب وسنت میں کوئی دلیل نہیں مسئلہ کی صورت مندرجہ ذیل ہے ۔
اصل : ۶ عائلہ = ۷×۳ تصحیح = ۲۱
خاوند تین بہنیں
نصف (دو تہائی) ثلثان
از اصل : ۳ ۴
از تصحیح : ۹ ۱۲
اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ خاوند کے بارے نصف کی نص قرآنی موجود ہے لہٰذا اسے نصف دے کر باقی بہنوں کو دیا جائے گا تو انہیں یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ بہنوں کے بارے بھی دو تہائی کی نص قرآنی موجود ہے تو پھر وہ بہنوں کو ان کا حصہ دو تہائی دے کر باقی خاوند کو کیوں نہیں دیتے ؟ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ رہا یہ مسئلہ کہ ۲۱ کا نصف10-1/2 ہوتا ہے نہ کہ ۹ تو غور فرمائیں ۲۱ کا دو تہائی بھی ۱۴ ہوتا ہے نہ کہ ۱۲ ۔ واللہ اعلم ۶/۶/۱۴۱۹ ھ
چوہدری حبیب اللہ پٹواری آف منڈی بہاؤالدین کے علم وراثت پر
۱۶ سوالوں کے جوابات ۔ جو 4/6/98 کو بھیجے گئے (۱)
س: میت کے ورثاء میں والدین اور ایک بیٹی ہے باپ کو کتنا ملے گا اور دلیل کیا ہے ؟
|