حضرت القاضی (۲)
سوال یہ پوچھنا ہے کہ جو آدمی علم نہیں رکھتا وہ ان مثالوں پر عمل کس طرح کرے اہل علم کی تقلید میں یا بلا تقلید ؟
شمس الدین
حضرت الحافظ (۲)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۲۵ شوال ۱۴۰۱ ھ کو جناب ماسٹر محمد خالد صاحب حضرت القاضی شمس الدین صاحب مدظلہ کی دوسری تحریر بندہ کے پاس لائے جس میں حضرت قاضی صاحب فرماتے ہیں ’’سوال یہ پوچھنا ہے کہ جو آدمی علم نہیں رکھتا وہ ان مثالوں پر عمل کس طرح کرے کسی اہل علم کی تقلید میں یا بلاتقلید ؟‘‘ ۔
جناب ماسٹر صاحب ! آپ کو معلوم ہے کہ حضرت قاضی صاحب اپنی پہلی تحریر میں نفس تقلید کے وجوب کے قرآن کریم سے ثابت ہونے کا نہ صرف دعویٰ فرما چکے ہیں بلکہ وہ اپنے اس دعویٰ پر اپنے ہی خیال کے مطابق قرآن مجید کی آیت مبارکہ﴿وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ﴾ بھی بطور دلیل لکھ چکے ہیں۔
نیز آپ کے علم میں ہے کہ بندہ نے حضرت قاضی صاحب کی اس پہلی تحریر کے جواب میں لکھا تھا ’’اہل علم کو معلوم ہے کہ جب تک دعویٰ میں مذکور الفاظ کے معانی متعین نہ ہوں اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ دعویٰ مدعی کی پیش کردہ دلیل سے ثابت ہو بھی رہا ہے یا نہیں اور الفاظ دعویٰ کے معنی مدعی ہی متعین کیا کرتا ہے یا پھر اس کا کوئی وکیل‘‘ ۔
لہٰذا ماسٹر صاحب سے اپیل ہے کہ وہ حضرت قاضی صاحب سے ان کے اپنے ہی دعویٰ میں مذکور الفاظ تقلید ، نفس تقلید اور وجوب کے معانی متعین کروائیں کہ وہ اس مقام پر تقلید ، نفس تقلید اور وجوب سے کیا کیا معانی مراد لے رہے ہیں تاکہ جائزہ لیا جا سکے آیا ان کا دعویٰ ’’نفس تقلید کا وجوب اللہ تعالیٰ کے قول﴿وَتِلْکَ الاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ﴾ سے ثابت ہوتا بھی ہے یا نہیں ؟‘‘
تو اب چاہیے تو یہ تھا کہ حضرت قاضی صاحب اپنی اس دوسری تحریر میں بتاتے کہ وہ تقلید ، نفس تقلید اور وجوب سے فلاں فلاں معانی مراد لے رہے ہیں تاکہ ہم بھی آپ لوگوں کو ان کے بیان فرمودہ معانی کی روشنی میں بتا سکتے آیا ان کا دعویٰ ’’نفس تقلید کا وجوب‘‘ مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے ثابت ہو بھی رہا ہے یا نہیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اس
|