وَالْقِیْرَاطُ طُسُوْجَانِ وَالطُّسُوْجُ حَبَّتَانِ‘‘[1] [اور رطل بارہ اوقیہ کا ہوتا ہے اور اوقیہ1-2/3 مثقال اورہے کا مثقال 4-1/2 استار اور ہے کا استار1-3/7 درہم کا ہے اور درہم ۶ دانق کا ہے اور دانق ۲ قیراط ہے اور قیراط ۲ طسوج ہے اور طسوج ۲ دانہ کا ہے]
اس طرح درہم کا وزن ۴۸ دانے بنتا ہے جن کا وزن پاک وہند کے علماء نے ۳ ماشہ1-1/5رتی بیان کیا ہے چنانچہ ایک بزرگ لکھتے ہیں ؎
درہم شرعی ازیں مسکین شنو
کآں سہ ماشہ ہست یک سرخح دو جو
[شرعی درہم اس مسکین سے سنو کہ وہ تین ماشہ ایک سرخہ دو جو ہے]
ایک دوسرے بزرگ فرماتے ہیں ؎
باز دینارے کہ دارد اعتبار
وزنآں از ماشہ دان نیم وچہار
[پھر وہ دینار جو قابل اعتبار ہے اس کا وزن ماشہ سے چار اور آدھا ہے]
شاید حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ سے مولانا محمد علی صاحب جانباز شیخ الحدیث جامعہ ابراہیمیہ ناصر روڈ سیالکوٹ حافظ صاحب رحمہ اللہ کا بیان کردہ حوالہ بتا سکیں ۔ واللہ اعلم
٭٭٭٭
|