Maktaba Wahhabi

428 - 592
ہ قریبی مرد کا حصہ ہے]اور قرآن مجید ۴/۱۱ میں ہے﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ فِیْٓ اَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ [وصیت کرتا ہے تم کو اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے کہ مرد کے لیے دو عورتوں کا حصہ ہے] لہٰذا حاجی حبیب اللہ صاحب کے ترکہ سے ان کی وصیت جائزہ اور قرضے ادا کرنے کے بعد جو ترکہ بچے وہ ان کے لڑکے سیف اللہ اور ان کی لڑکی خورشیدہ کے درمیان اصحاب الفرائض کو دینے کے بعد﴿لِلذَّکَر مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ کے حساب سے تقسیم کیا جائے گا ۔ پھر آگے سیف اللہ اور خورشیدہ اپنے اپنے حصوں سے برضا ورغبت اپنے بھانجوں عبداللہ اور شکیل کو کچھ دینا چاہیں تو شرعاً دے سکتے ہیں۔ اور اگر حاجی حبیب اللہ صاحب کی لڑکی ہاجراں حاجی صاحب موصوف کی وفات کے وقت زندہ تھی تو پھر حاجی صاحب کے ترکہ کو مذکورہ بالا طریقہ سے تقسیم کرنے کے بعد جو بچے وہ سیف اللہ خورشیدہ اور ہاجراں تینوں کے درمیان﴿لِلذَّکَر مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ کے حساب سے تقسیم ہو گا پھر جو ہاجراں کو حصہ ملے وہ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے وارثوں کے درمیان تقسیم ہو گا اس صورت میں عبداللہ اور شکیل کو ان کی والدہ ہاجراں کے حصہ سے حصہ ملے گا ۔ ھذا ما عندی و اللّٰه اعلم ۱۰/۸/۱۴۱۰ھ س: مؤدبانہ گزارش ہے کہ بندہ ہذا کا وراثت کی تقسیم کا مسئلہ ہے کہ چوہدری محمد ابراہیم مرحوم کا کل رقبہ ۲۹۴ کنال یعنی ۳۶ ایکڑ ۶ کنال ہے جبکہ محمد ابراہیم مرحوم کی اولاد میں سے صرف ۲ بیٹیاں ہیں مسئلہ یہ ہے کہ باقی وارثوں کو اس زمین میں سے کتنا کتنا حصہ ملے گا؟
Flag Counter