إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلّٰی مَعَ الإِمَامِ حَتَّی یَنْصَرِفَ حُسِبَ لَہُ قِیَامُ لَیْلَۃٍ‘‘[1] [میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کاش آپ ہمیں باقی رات بھی قیام فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ایک شخص جہاں امام کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوتا ہے اس کے نامہ اعمال میں رات کے قیام کا ثواب ثبت ہو جاتا ہے] تو اس قولی حدیث کی بنیاد پر سارا رمضان قیام باجماعت کیا جاتا ہے نہ کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول یا عمل کی بنیاد پر ۔آپ نے سوال میں لکھا ہے ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کے بعد منع فرما دیا تھا‘‘ یہ درست نہیں کیونکہ آپ نے فرمایا ’’ فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلاَۃِ الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِہِ إِلاَّ الْمَکْتُوْبَۃَ‘‘[2] [پس بے شک آدمی کی افضل نماز اس کے گھر میں ہے سوائے فرض کے ] جس سے ممانعت نہیں نکلتی کما لا یخفی و اللّٰہ اعلم ۱۱/۹/۱۴۱۶ ھ
س: ایک آدمی مسجد میں دیر سے آتا ہے آگے تراویح کی نماز باجماعت ہو رہی ہے نیا آنے والا فرض نماز کی نیت کر کے تراویح کی نماز کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنی نماز مکمل کرتا ہے کیا اس طرح کرنا درست ہے ۔ اور کچھ لاہور کے سلفی لوگ کہتے ہیں کہ تراویح گھر میں پڑھنی چاہیے مسجد میں باجماعت نہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں ؟ محمد امجد طاہر آزاد کشمیر 30دسمبر 1998
ج: نفل نماز کے پیچھے فرض نماز ادا کرنا درست ہے عمرو بن سلمہ کی امامت اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کی نماز عشاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں پڑھ کر اپنے محلہ میں جا کر عشاء کی امامت [3] والے دونوں واقعے اس کی دلیل ہیں ۔ قیام رمضان میں تین فضیلتیں ہیں ۔ (۱) وقت کی فضیلت پچھلی رات قیام پہلی رات قیام سے افضل ہے ۔ (۲) باجماعت قیام بے جماعت قیام سے افضل ہے ۔ (۳) گھر میں قیام مسجد میں قیام سے افضل ہے ۔ گھر میں پچھلی رات باجماعت قیام کرنے سے تینوں فضیلتیں حاصل ہو جائیں گی باقی کوئی شخص یہ تین فضائل حاصل نہیں کر سکتا تو اسے ایک دو فضائل سے بہرہ ور ہونے دینا چاہیے مسئلہ فقط افضل غیر افضل کا ہے جائز ناجائز کا نہیں ۔ ۳/۱۰/۱۴۱۹ ھ
لفظ تراویح کی حقیقت
جس نماز کو لوگ لفظ تراویح سے یاد کرتے ہیں اس نماز کا یہ نام ’’تراویح‘‘ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ۔
۱۴/۱۰/۱۴۰۷ ھ
|