کتاب النکاح …… نکاح کے مسائل
س : کیا اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی جائز ہے ؟ عبدالحق دوکاندارضلع سیالکوٹ
ج: صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار (نکاح وٹہ) سے منع فرمایا‘‘[1] اور بعض احادیث میں یہ لفظ بھی آئے ہیں ’’اسلام میں شغار نہیں‘‘ صحیح بخاری میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ’’اسلام نے لوگوں کے آج رائج نکاح کے علاوہ جاہلیت کے تمام نکاحوں کو ختم کر دیا‘‘ تو ان دلائل کی روشنی میں نکاح شغار نکاح باطل ہے ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم
۷/۵/۱۴۱۲ ھ
س : صورت احوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک اہل حدیث لڑکے کی شادی ہوئی تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد لڑکے والوں کے ہاں ان کی بہن دینی تعلیم پڑھ کر فارغ ہوئی اب ان کا خیال ہوا کہ جس گھر ہم نے اپنے بیٹے کی شادی کی ان کے ہاں ایک لڑکا ہے جو کہ نیک سیرت وصورت کے لحاظ سے بھی ٹھیک اور عالم باعمل ہے اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ لڑکے والے جس سے انہوں نے پہلے لڑکی لی اب اپنی بیٹی کی شادی وہاں کر سکتے ہیں کہ نہیں اگر کر لیتے ہیں تو آیا یہ نکاح شغار میں تو شمار نہیں ہو گا حالانکہ ۳ سال پہلے شادی کے وقت اس موضوع پر گفتگو تک نہ ہوئی تھی کہ اگر تم اپنی بچی دو گے تو پھر ہم اپنی بچی تم کو دیں گے یا پھر اس کے الٹا ۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء ۔ ہاں اگر یہ رشتہ شرعی لحاظ سے درست ہے تو پھر اگر لڑکے کے والدین اس میں مخالفت کریں تو کیسا ہے جبکہ لڑکا اور لڑکی اور اس کے والدین راضی ہیں۔ عباس الٰہی ظہیر سرگودھا
ج: صورت مسؤلہ نکاح شغار کی صورت نہیں ہے رہا لڑکے کا اپنے والدین سے معاملہ تو اس کے متعلق قرآن مجید میں ہے﴿وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا﴾[2] [اور دنیا میں ان کے ساتھ دستور کے موافق رہ] ۲۳/۷/۱۴۱۴ ھ
س: مجھے ایک شخص نے اپنی بیٹی اس شرط پر میرے نکاح میں دی کہ میں اپنی بہن کی شادی اس شخص کے بیٹے سے کرا دوں ۔ میں نے اس کی یہ شرط قبول کر کے اپنی بہن کی شادی اس کے بیٹے سے اور اپنی شادی ان کی بیٹی سے شرعی طریقے سے کی ۔
|