Maktaba Wahhabi

283 - 592
اَفْطَرْتَ مِنْ رَمَضَانَ فَصُمْ یَوْمَیْنِ مَکَانَہٗ[1] [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہا کیا تم نے اس ماہ کے سَرَرَ میں روزہ نہیں رکھا اور ایک روایت میں ہے کیا تو نے شعبان کے سَرَرَ میں روزہ نہیں رکھا اور ایک روایت میں ہے کیا تو نے اس ماہ کے سُرَّۃ میں روزہ رکھا ہے پس جب تو افطار کرے تو دو روزے رکھ اور ایک روایت میں ہے پس جب تو افطار کرے رمضان سے پس تو اس کی جگہ دو روزے رکھ] ملک محمد یعقوب ہری پور ج: حدیث :﴿اَمَا صُمْتَ سَرَرَ ہٰذَا الشَّہْرِ﴾ الخ میں محفوظ لفظ ’’سَرَرَ‘‘ ہے یا ’’ سَرَارَ‘‘ نہ کہ لفظ ’’سُرَّۃ‘‘ اگر لفظ ’’سُرَّۃ‘‘ محفوظ ہو بھی تو اس سے مراد آخر ہے نہ کہ وسط چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری میں ’’سَرَرَ‘‘ کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’قَالَ أَبُوْ عُبَیْدٍ وَالْجُمْہُوْرُ : اَلْمُرَادُ بِالسَّرَرِ ہُنَا آخِرُ الشَّہْرِ سُمِّیَتْ بِذٰلِکَ لِاِسْتِسْرَارِ الْقَمَرِ فِیْہَا وَہِیَ لَیْلَۃُ ثَمَانٍ وَعِشْرِیْنَ وَتِسْعٍ وَعِشْرِیْنَ وَثَلاَثِیْنَ ۔ وَنَقَلَ أَبُوْدَاؤدَ عَنِ الْاَوْزَاعِیْ وَسَعِیْدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْزِ أَنَّ سَرَرَہ أَوَّلُہ ، وَنَقَلَ الْخَطَابِیُ عَنِ الْاَوْزَاعِیْ کَالْجُمْہُوْرِ ۔ وَقِیْلَ السَّرَرُ وَسَطُ الشَّہْرِ حَکَاہُ اَبُوْدَاوُدَ أَیْضًا، وَرَحَّجَہُ بَعْضُہُمْ وَوَجْہُہُ بِأَنَّ السَرَرَ جَمْعُ سُرَّۃٍ وَسُرَّۃُ الشَّیْئِ وَسَطُہُ وَیُؤَیِّدُہُ النَّدْبُ إِلی صِیَامِ الْبِیْضِ وَہِیَ وَسَطُ الشَّہْرِ وَأَنَّہٗ لَمْ یَرِدْ فِی صِیَامِ آخِرِ الشَّہْرِ نَدْبٌ بَلْ وَرَدَ فِیْہِ نَہْیٌ خَاصٌ وَہُوَ آخِرُ شَعْبَانَ لِمَنْ صَامَہُ لِأَجْلِ رَمَضَانَ وَرَجَّحَہُ النَوَوِیْ بِأَنَّ مُسْلِمًا أَفَرَدَ الرِوَایَۃَ الَّتِیْ فِیْہَا سُرَّۃُ ہٰذَا الشَّہْرِ عَنْ بَقِیَّۃِ الرِوَایَاتِ وَأَرْدَفَ بِہَا الرِوَایَاتِ الَّتِیْ فِیْہَا الْحَضُّ عَلٰی صِیَامِ الْبِیْضِ وَہِیَ وَسَطُ الشَّہْرِ کَمَا تَقَدَّمَ لٰکِنْ لَمْ أَرَہُ فِیْ جَمِیْعِ طُرُقِ الْحَدِیْثِ بِاللَّفْظِ الَّذِیْ ذَکَرَہُ وَہُوَ سُرَّۃٌ بَلْ ہُوَ عِنْدَ اَحْمَدَ مِنْ وَجْہَیْنِ بِلَفْظِ سَرَارٍ وَأَخْرَجَہُ مِنْ طُرُقٍ عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیْ فِیْ بَعْضِہَا سَرَرٌ وَفِیْ بَعْضِہَا سَرَارٌ ، وَہٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْمُرَادَ آخِرُ الشَّہْرِ‘‘ الخ [کیا تم نے اس ماہ کے آخر میں روزہ نہیں رکھا الخ میں محفوظ لفظ سرر ہے یا سرار نہ کہ لفظ سرۃ ۔ اگر لفظ سرۃ محفوظ ہو بھی تو اس سے مراد آخر ہے نہ کہ وسط چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری میں لفظ سرر کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابو عبید اور جمہور نے کہا ہے سرر سے یہاں ماہ کا آخر مراد ہے اور اس کے ساتھ نام رکھا گیا ہے اس میں چاند کے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے اور وہ اٹھائیسویں اور انتیسویں اور تیسویں رات ہے اور ابوداود نے اوزاعی اور سعید بن عبدالعزیز سے نقل کیا ہے کہ سرر کا معنی اول ہے اور خطابی نے اوزاعی سے جمہور کی طرح نقل کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرر کا معنی درمیان ہے اس کو بھی ابوداود نے حکایت کیا اور بعض نے اس کو ترجیح دی ہے اور اس کی
Flag Counter