Maktaba Wahhabi

407 - 592
الگ ہوں چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں ’’﴿وَلَہٗ أَخٌّ أَوْ أُخْتٌ﴾ أَیْ مِنْ أُمٍّ کَمَا ہُوَ فِیْ قِرَائَ ۃِ بَعْضِ السَّلَفِ مِنْہُمْ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ وَکَذَا فَسَّرَہَا أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیْقُ فِیْمَا رَوَاہُ قَتَادَۃُ عَنْہُ ۔ ۱ ھ ‘‘ بیوی اور دونوں بہنوں کو کل جائیداد سے ان کے حصے دینے کے بعد جو باقی بچے گا وہ متوفی کے چار چچا زاد بھائیوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے﴿أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَہْلِہَا فَمَا بَقِیَ فَلِأَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ یاد رہے اوپر ذکر شدہ کل جائیداد سے مراد وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد کل جائیداد بشرطیکہ وصیت اور قرض ہو ۔ صورت مسئلہ اس طرح ہے ۔ اصل مسئلہ : ۱۲×۴ ۔تصحیح = ۴۸ ترکہ ۲۷ ایکڑ بیوی دو بہنیں ماں کی طرف سے چار چچا زاد بھائی ¼ ۳؍۱ باقی ۳ ۴ ۵ ۱۲ ۱۶ ۲۰ ۶¾ایکڑ ۹ ایکڑ ۱۱-۳؍۱ ایکڑ ۵/۱۱/۱۴۰۹ ھ س: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ میرے تایا جان لاولد مولانا حکیم عبدالقیوم ولد مولانا حکیم علی محمد تھے مولانا علی محمد کا انتقال ہندوستان میں ہی ہو گیا تھا مولانا عبدالقیوم قیام پاکستان سے قبل بیوی کو طلاق دے چکے تھے یہاں ان کو پچھلے یونٹوں کے حساب سے ترتالیس کنال دو مرلہ زمین ملی تھی ان کی تین بہنیں امۃ اللہ ، صغریٰ ، زبیدہ تھیں اور ایک ہی بھتیجا جس کا نام شفیق الرحمن تھا اب بتایا جائے اس زمین سے مزید بہنوں کا کیا کیا حصہ بنتا ہے اور بھتیجے کو کیا حصہ آتا ہے جبکہ وہ اپنی زندگی میں تینوں بہنوں کے نام ایک ، ایک ، ایک ایکڑ اور کچھ مرلے زمین لگوا چکے تھے ۔ 29 نومبر 1993 کو مولانا عبدالقیوم کا انتقال ہو گیا یہ واضح کیا جائے باقی زمین میں اب پھر بہنوں کو کیا مزید حصہ بھی ملے گا یا نہیں کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل طور پر واضح کیا جائے ۔ شفیق الرحمن بن حافظ عبیدالرحمن (ضلع خانیوال) یکم جنوری 1994
Flag Counter