اصل مسئلہ = ۲۴ × ۷ تصحیح = ۱۶۸ ترکہ ۲۷۰۰۰۰۰
باپ بیوی لڑکا لڑکا لڑکا لڑکی سوتیلی ماں بھائی
سدس ثمن عصبہ للذکر مثل حظ الانثیین × ×
6؍1 ⅛ باقی × ×
از مسئلہ : ۴ ×۷ ۳×۷ ۱۷×۷=۱۱۹ × ×
از تصحیح : ۔ ۲۸ ۲۱ ۳۴ ۳۴ ۳۴ ۱۷ × ×
از ترکہ: ۴۵۰۰۰۰ ۳۳۷۵۰۰۔ا ور ہر لڑکے کو۵۷.۵۴۶۴۲۸ ۔ اور ہر لڑکی کو ۲۸. ۲۷۳۲۱
واللہ اعلم ۶/۱/۱۴۱۹ ھ
س: سائل عرض گزار ہے کہ زید فوت ہوتا ہے ورثاء میں سے ایک بیوہ دو ہمشیرگان ماں کی طرف سے اور چار چچا زاد بھائی (غیر حقیقی) چھوڑے ہیں ان میں جائیداد کس طرح تقسیم ہو گی اور ان کے کتنے کتنے حصے ہیں کیا ماں کی طرف سے بہنوں کو کل ترکہ سے حصہ ملے گا ۔یا زید نے جو اپنی بیوہ چھوڑی اس کو دے کر مابقی سے دیا جائے گا ۔ متوفی کی کل جائیداد ۲۷ (ستائیس) ایکڑ ہے وصیت اور قرضہ نہیں ہے ۔ قاضی عبدالرزاق جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ 10/6/89
ج: صورت مسؤلہ میں متوفی کی بیوی کو کل جائیداد کا ¼ چوتھا حصہ ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ﴾ 1[اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے اس میں سے جو چھوڑ مرو تم اگر نہ ہو تمہاری اولاد] اور ماں کی طرف سے دو بہنوں کو کل جائیداد کا ۳؍۱ تیسرا حصہ ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلاَ لَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ وَلَہٓ اَخُ اَوْ اُخْتٌُ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ فَاِنْ کَانُوْآ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَآئُ فِی الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِہَآ أَوْ دَیْنٍ﴾ [اور اگر وہ مرد کی جس کی میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا یا عورت ہو ایسی ہی اور اس میت کے ایک بھائی ہے یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اگر زیادہ ہوں اس سے تو سب شریک ہیں ایک تہائی میں بعد وصیت کے جو ہو چکی ہے یا قرض کے ]
یاد رہے اس آیت مبارکہ میں مذکور بہن بھائی وہ ہیں جو اخیافی ہوں یعنی ماں کی طرف سے ہوں اور ان کے باپ
|