Maktaba Wahhabi

56 - 211
ایسے ناموں کی ممانعت کی حکمت یوں سمجھیں کہ اگر کوئی شخص دریافت کرے کہ کیا ’’گھر میں برکت ہے؟‘‘ تو اس کی غیر موجودگی میں گھر والے کہیں گے کہ برکت گھر میں نہیں ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ ٭ ان احادیث اور واقعات سے معلوم ہوا کہ بُرے ناموں کی بُری تاثیر ہوا کرتی ہے، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کا اچھا نام رکھے کیوں کہ اچھے ناموں کی تاثیر بھی ان شاء اللہ اچھی ہی ہوگی۔ ٭ شیطانی نام نہیں رکھنے چاہییں، جیسے:خنزب، ولہان، اعور، اجدع وغیرہ۔ ٭ ایسے ناموں سے بچنا چاہیے، جن میں شرک پایا جاتا ہے، مثلاً:عبد النبی، عبد الرسول، عبد الکعبہ، عبد العزّیٰ، عبدِ مناف وغیرہ۔ نامناسب ناموں میں سے چند نام وہ ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب تو کیے جاسکتے ہیں، لیکن احادیث کی کتاب میں ان کو اللہ تعالیٰ کا نام نہیں بتایا گیا ہے۔ایسے ناموں کی ساتھ ’’عبد‘‘ کی ترکیب کے ساتھ نام رکھنے کو صاحبِ ’’تسمیۃ المولود‘‘ علامہ بکر ابو زید نے منع کیا ہے، مثلاً:عبدالمقصود، عبدالستار، عبدالموجود، عبد المعبود، عبدالمرسل، عبدالوحید اور عبدالطالب۔ ٭ بہتر یہ کہ فرشتوں کے ناموں پر نام نہ رکھے جائیں، جیسے:جبرائیل، میکائیل، اسرافیل وغیرہ۔ ٭ قرآنی سورتوں کے نام نہ رکھنا چاہیے، مثلاً:یٰس، طٰہ، حٰم وغیرہ، عام طور پر لوگوں میں مشہور ہے کہ یٰس اور طٰہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہیں، اس سے متعلق کوئی صحیح حدیث وارد ہے نہ حسن، نہ مرسل روایت اور نہ کوئی اثر۔بلکہ یہ بھی قرآن مجید کے دیگر حروفِ مقطعات جیسے:الٓم، حٰمٓ، الٰرٰ، کی طرح ہی ہیں۔
Flag Counter