Maktaba Wahhabi

31 - 211
ہے، جو کبیرہ گناہ ہے۔ انسان اپنے بچوں کو نماز و روزہ کا پابند اور سچا مسلمان بنانے کی خود مقدور بھر کوشش کرتا رہے اور اس کے لیے اللہ سے دعائیں بھی کرتا رہے، جیسے حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام نے دعا کی تھی: ﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآئِ﴾[إبراھیم:۴۰] ’’مالک میرے مجھ کو نماز کا پابند کر دے اور میری اولاد میں سے بھی کچھ لوگوں کو، مالک ہمارے! اور میری عبادت قبول کر۔‘‘ اولاد نیک ہو تو آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلب و نظر کی تسکین و راحت کا سبب بنتی ہے۔اولاد کی نیکیوں کا صلہ والدین کو دنیا میں نیک شہرت اور وفات کے بعد صدقہ جاریہ کی شکل میں ملتا رہتا ہے۔لیکن اگر اولاد بگڑ جائے تو دل کے لیے ناسور بن جاتی ہے اور ان کی بد اعمالیاں والدین کے چین و سکون کو غارت کردیتی اور کبھی ان کے لیے ندامت و رسوائی کا باعث بن جاتی ہیں، یہاں تک کہ قرآنِ کریم میں ایسے بچے کے لیے سفارش کرنے سے منع کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ﴾[ھود:۴۶] ’’اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، اس کے گن اچھے نہیں تو جو بات تجھے معلوم نہیں(جس کی حقیقت تو نہیں جانتا)وہ مجھ سے مت مانگ، میںتجھے نادانوں میں شریک ہونے سے ڈراتا ہوں۔‘‘
Flag Counter