Maktaba Wahhabi

208 - 211
’’نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بروں کی صحبت اختیار کی، جس کی وجہ سے اپنے خاندان کی نبوت کو گنوا بیٹھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ دستور رہا ہے کہ پیغمبروں کی نیک اولاد کو بھی نبوت سے سرفراز فرماتے ہیں، جب کہ اصحابِ کہف کا کتا چند دن نیک لوگوں کی صحبت میں رہا، جس کی وجہ سے وہ ان نیک لوگوں کے ساتھ ہی گنا جانے لگا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے اپنے ان اولیا کے ساتھ اس جانور کا تذکرہ بھی قرآنِ مجید میں محفوظ کر دیاہے۔[1] اسی لیے اسلام نے شر پسند افراد کی صحبت سے بار بار منع کیا ہے، کیونکہ اس سے انسان راہِ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی اور بری صحبت کو ایک لطیف مثال سے واضح فرمایا ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِیْسِ السُّوْئِ کَمَثَلِ حَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ، فَأَمَّا حَامِلُ الْمِسْکِ أَنْ یَّہْدِیْکَ، أَوْ تَشْتَرِیَ مِنْہُ، أَوْ تَجِدُ مِنْہُ رِیْحاً طَیِّبَۃً، وَنَافِخُ الْکِیْرِ فَإِمَّا أَنْ یُّحْرِقَ ثِیَابَکَ، أَوْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًا مُنْتِنَۃً))[2] ’’اچھے ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری اٹھائے ہوئے شخص اور بھٹّی پھونکنے والے لوہار کی طرح ہے، کستوری مشک والا شخص یا تو خود ہی مشک دے دے گا، یا تم اس سے خرید لو گے، اگر یہ بھی نہ ہوا تو اس کی عطر بیزی سے تمھاری مشامِ معطر ہوگی، جب کہ بھٹّی جھونکنے والا تمھارے کپڑے جلا دے گا یا اس کی بدبو تمھیں ضرور
Flag Counter