Maktaba Wahhabi

142 - 292
ان کے دلائل میں سے ہے کہ: مال داری کے ساتھ شکر کی زیادہ فضیلت اور اہمیت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَاللّٰہُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ) (البقرة:105) ’’اور اللہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے۔‘‘ مال دار شاکر فقراء صابرین کی اطاعت کی وجہ بنتے ہیں۔ یعنی ان کو صدقہ کر کے ان پر احسان کر کے اور ان کی مدد کر کے۔ ان کے لیے فقراء کے اجر میں سے وافر حصہ ہے جتنا غریب صابر کا ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے: ’’جس شخص نے روزے دار کو افطاری کروائی، یہ عمل اس کی بخشش کا سبب بنے گا اور اس کی گردن کو جہنم سے آزاد کرنے کا سبب بنے گا۔ اور عمل کرنے والے کے برابر اس کو اجر ملے گا۔‘‘ غنی شاکر نے اپنے روزے کے اجر کے ساتھ ساتھ مزید اجر بھی حاصل کیا جو غریب صابر کو حاصل نہیں۔ غنی شاکر کی فضیلت میں کچھ اور تو نہیں بلکہ صدقہ ہے۔ جب اعمال فخر کریں گے اس عمل کا فخر انھی کی وجہ سے ہو گا۔ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اعمال فخر کریں گے، صدقہ کہے گا میں تم میں سب سے افضل ہوں، صدقہ بندے کو جہنم سے بچانے والا ہے اور عرش کے نیچے اسی کی وجہ سے سایہ لینے والا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے ہر بندہ اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا، حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے ۔[1] صدقے کے بارے میں بہت سی احادیث موجود ہیں۔ جب ایک جانور کو پانی پلانے کی وجہ سے جنت میں داخل کر دیا گیا تو اس کو کھلانے اور پلانے کا کتنا اجر ہو گا اور بے لباس کو لباس دینے کا کیا اجر ہو گا…؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جہنم کی آگ سے بچو، اگرچہ کھجور کا ٹکڑا دے کر۔ اگر وہ بھی نہ ہو تو اچھی بات کہہ کر جہنم کی آگ سے بچو۔‘‘ [2]
Flag Counter