Maktaba Wahhabi

150 - 292
ہے، جو جلدی مواخذے کا تقاضا کرتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ صبر، رحمت، شفقت اور بردباری کا مظاہرہ فرماتے ہیں لیکن جہاں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی وہاں اللہ کی ناراضگی اور پکڑ آ لیتی ہے۔ یہ اللہ کی ذاتی صفات ہیں جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ سمندر ہر روز اجازت مانگتا ہے بنی آدم کے غرق کرنے کی۔ اور یہ اس کی طبیعت کے موافق بھی ہے کہ ساری زمین کا پانی خشکی پر غالب آ جائے ۔[1] اسی طرح پہاڑوں کا گر پڑنا اور آسمانوں کا پھٹ جانا، یہ سب اللہ کے صبر اور حلم کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ کفار اور مشرک: اللہ تعالیٰ نے سورۂ انعام میں جب اپنے دشمنوں اور کفر و شرک کا ذکر کیا تو اس کے بعد ابراہیم خلیل اللہ کا ذکر کیا اور جو ان کو آسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت دکھائی، اس کا تذکرہ کیا، اور اپنی قوم سے توحید پر انھوں نے جو جھگڑا کیا اس کا ذکر کیا، انبیاء کرام علیہ السلام اور ان کی اولاد کا تذکرہ کیا اور ان کو کتاب، بادشاہت اور نبوت کے عطا کرنے کا ذکر کر کے فرمایا: (فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَـٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ) (الانعام: 89) ’’پھر اگر یہ لوگ ان باتوں کا انکار کریں تو ہم نے ان کے لیے ایسے لوگ مقرر کیے ہیں جو کسی صورت ان کا انکار کرنے والے نہیں۔‘‘ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ صبر کی صفت کا قرآن میں ذکر نہیں ہے تو اسے کہا جائے گا کہ صبر کی بنیاد حلم ہے، لہٰذا صبر کی صفت بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’شکور‘‘ کا قرآن و حدیث دونوں میں تذکرہ موجود ہے۔ (وَ اللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌ) (التغابن: 17) ’’اور اللہ بڑا قدردان، بے حد بردبارہے۔‘‘
Flag Counter