Maktaba Wahhabi

283 - 292
پر صابرین وشاکرین ہی تدبر وتفکرکرکے مستفیدہوتے ہیں۔ ارشاباری تعالیٰ ہے: (وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِإِن يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَىٰ ظَهْرِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ) (الشوريٰ:32۔33) ’’اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر میں چلنے والے جہاز ہیں، جو پہاڑوں جیسے ہیں۔اگر وہ چاہے ہوا کو ٹھہرا دے تو وہ اس کی سطح پر کھڑے رہ جائیں۔ بے شک اس میں ہر ایسے شخص کے لیے یقینا کئی نشانیاں ہیں جو بہت صبر کرنے والا، بہت شکر کرنے والا ہے۔‘‘ قرآن کریم کے اندر یہ چار مواقع ایسے ہیں جواس بات کی دلیل فراہم کرتے ہیں کہ اللہ کی آیات اور نشانیوں سے صابرین وشاکرین ہی استفادہ کرتے ہیں۔ انہی کو اس کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔ یہ رتبہ بلند انہی کے لیے خاص ہے۔ مطلوب تک رسائی کا ذریعہ: کسی عربی شاعر کا قو ل ہے:’’مایوسی کا ہرگزہرگز شکارنہ ہونا، اگرچہ حصول مدعا میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائے۔ اگرتم نے صبر کے دوش پرسوارہوکرمنزل مقصودتک رسائی کی کوشش کی تواللہ کی مدد آکررہے گی اورتم اس کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرو گے۔ صبروشکرکرنے والا اپنی مراد کوپاکر رہتا ہے اور وہ اس لائق ہے کہ اپنی حاجت کے حصول تک رسائی پاجائے اور یقیناپاکررہتا ہے۔ ٹھیک اس طرح جس طرح باربار دروازہ کھٹ کھٹانے والا بالآخردروازے کے اندرداخلہ حاصل کرلیتا ہے۔‘‘ [1] اسی طرح ایک اور عربی شاعر کا کہنا ہے:’’بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جوکسی کام کی انجام دہی کی کوشش میں جد یت سے کام لیں اور صبر کواپنا ساتھی بنائیں جوشخص ایسا کرتا
Flag Counter