Maktaba Wahhabi

265 - 292
جاتا ہے کیونکہ اس نے اپنے نفس کو جزع وفزع سے روکے رکھا۔ لہٰذا اس کوصابر کہا گیا۔ ماہ رمضان کو ’’شہر صبر‘‘ کانام دیا جاتا ہے کیونکہ مسلمانان عالم اس ماہ مبارک کے ایام میں کھانے پینے اور شہوت وغیرہ پوری کرنے کی عادت سے اجتناب کی مشقت وصعوبت برداشت کرتے ہیں۔ صبروتحمل کا موزوں ترین وقت اس بارے میں سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عورت کے پاس سے گذرہوا جوایک قبرپر بیٹھی روپیٹ رہی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کرکے فرمایا: ’’اللہ سے ڈر اور صبر وتحمل سے کام لے۔ ‘‘ تواس عورت نے جواب دیا: ’’تم کواس سے کیا سروکارہے مجھے میرے حال پر چھوڑدو اور مجھ سے دور ہوجاؤ۔ ‘‘تم کو میری مصیبت کا کیا اندازہ؟تم اگرمیری طرح مصیبت سے دوچارہوتو تمہیں پتہ چلے مگرتم تو اس سے ناواقف ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے اس حال میں بحث ومباحثہ کرنا مناسب نہیں سمجھااور اس طرح کی صورتحال سے نپٹنے کے لیے ایک داعی کے لیے یہی موزوں ترین اسلوب دعوت ہے اور یہی مناسب اورصحیح موقف کا انتخاب ہے بعد میں اس کو بتلایاگیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو تم کونصیحت کررہے تھے یہ سن کر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت کی غرض سے خودچل کر آئی تو دیکھتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر نہ کوئی سکیورٹی گارڈ ہے اور نہ کوئی چوکیدار۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطورمعذرت عرض کیا: مجھے معاف فرمادیجیے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا: ’’صبرتوغم واندوہ سے دوچارہوتے وقت اول وہلہ میں ہوتاہے اب اس پر کف افسوس ملنے سے کیا فائدہ؟‘‘ [1]
Flag Counter