Maktaba Wahhabi

299 - 292
خاتمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب و آزمائش کے وقت صبر وتحمل کو وسیلہ کے طورپر اختیارکرنے کی تعلیم دی ہے۔ چنانچہ سیّدنا ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’تمہارے پیچھے ایسے ایام آنے والے ہیں جو ایام صبرہوں گے،جن دنوں میں صبر کرناہتھیلی پر انگارے رکھنے کے مترادف ہوگا ایسی صورت حال میں دین پر عمل کرنے والے کا اجرپچاس آدمیوں کے عمل کرنے کے برابر ہوگا۔‘‘ [1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں آزمائش کو ایام صبر قراردیا ہے اور شہوات نفسانیہ کی بڑھکتی آگ نیز محکم شبہات سے لبریز ایام کااس تعبیر بلیغ کے ذریعہ ذکر فرمایا ہے۔ مراد یہ ہے کہ آخری زمانہ میں صورت حال ایسی ہوگی جس میں دین پر صبر کرنا مٹھی میں انگارے پکڑنے کے مترادف ہو گا۔ ایسے زمانے میں صبر کرنے والے ہی اصل دین دارہوں گے۔ شبہات کے چکر میں پڑ کر ان کے پائے ثبات میں ذرہ برابر جنبش پیدانہ ہوگی اور نہ ہی وہ شبہات کے اسیر ہوکر اس کی غلامی کرنے پرآمادہ ہوں گے۔ انہیں چاہے جتنی تکلیفیں اور اذیتیں دی جائیں ان کے دین میں ذرہ برابر ضعف یا کمزوری پیدانہ ہوگی۔ حدیث مذکور میں اسی صورت حال کو ایام صبر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے کیونکہ صورت حال ایسی ہوگی کہ ان ایام میں صبر کے علاوہ اور کوئی چارئہ کار نہ ہوگا اور مؤمن کے لیے صبر وتحمل کے علاوہ اور کوئی طریق کار سودمند نہ ہوگا۔کسی عربی شاعر کا قول ہے:’’یہ صبر کا زمانہ ہے آنکھ بندپر کانٹوں پر چل کر نکل جاؤ اور اللہ کے لیے صبر وتحمل سے کام لو اور نرمی اور بردباری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالو۔چونکہ سلف صالحین نے صبر کی اہمیت وافادیت کا اندازہ لگالیا تھا اسی
Flag Counter