Maktaba Wahhabi

264 - 292
جائے۔ میزان صرفی کے اعتبار سے کہا جائے گا (صبر،یصبر،صبرا) نیز زبان وادب کے اعتبارسے صبر (جزع وفزع) کی ضد ہے ان میں سے ہر ایک کے معنی ایک دوسرے کے عکس ہوا کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے(رجل صابر،وصبار،وصبیر،وصبور) اور عربی زبان میں مؤنث کاصیغہ بھی( صبور )ہی آتا ہے۔ اور جب کہا جائے (التصبر) تواس سے مراد یہ ہے کہ اس نے مشقت اور صعوبت برداشت کرکے صبر کیا۔ مراد یہ ہے کہ دکھاوے کی خاطر بلاوجہ کا بطورتکلف صبر کا مظاہرہ کیا۔ اور کہاجاتا ہے صبر کے پانچ مختلف مراتب اور درجات ہیں: (1)صابر (2) مصطبر (3) متصبر (4)صبور (5)وصبار ان میں سے صابر تو صبر کے سلسلہ میں عام طرح کے مرتبہ پرفائز شخص کوکہاجاتا ہے اس کے بعدمصطبر کا مرتبہ ہے یعنی صبر پر جمارہنے والا اور ابتلاء سے دوچار شخص اسی طرح (متصبر)کہہ کر وہ شخص مرادلیا جاتا ہے جو بناوٹی طورپر صبر کرے اوراپنے نفس کو دکھاوے کی غرض سے بناوٹی صبر کے لیے آمادہ کرے اور (صبور )سے مرادصبرعظیم کا مظاہرہ کرنے والا۔ جس کا صبرلوگوں میں مثال ہو جس نے صبر کی انتہا کردی ہو۔ بایں طور کہ اس کا مدمقابل اس کی سکت نہ رکھتا ہو اور (صبار ) سے مراد حد سے زیادہ صبر وتحمل سے کام لینے والا۔[1] ا صطلاحی و فنی تعریف : نفس کو مرغوبات ومحبوبات سے روکنے کی مشقت وصعوبت برداشت کرنا اور ہوائے نفس کے چنگل میں پھنس جانے سے نفس کو بچائے رکھنا صبر کہلاتا ہے۔ یا نفس کواس چیزکی انجام دہی کی طرف گامزن رکھنا جس کی انجام دہی اللہ کو مطلوب ہے اور اس عمل کی انجام دہی سے روکے رکھنا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ اسی لیے مصیبت وابتلاء کا مقابلہ کرتے ہوئے ڈٹے رہنے والے شخص کو (صابر) کہا
Flag Counter