کے لیے کہیں بہتر ہے جو ایمان لایا اور اس نے اچھا عمل کیا اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کرنے والے ہیں۔‘‘
مرادیہ ہے کہ جنت کے مستحق صابروشاکر لوگ ہی ہوں گے جودنیاوی لذتوں سے کنارہ کش اور آخرت کی زندگی میں رغبت رکھنے والے ہوں۔
اجروثواب میں مسلسل اضافے کا سبب:
اللہ تعالیٰ نے صابر وشاکر لوگوں کے اجر میں کئی گنااضافہ ہونے کی خبردیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
(أُولَٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا) (القصص:54)
’’یہ لوگ ہیں جنھیں ان کا اجر دوہرا دیا جائے گا، اس کے بدلے کہ انھوں نے صبر کیا۔‘‘
جبکہ اعمال صالحہ کا اجر متعین اور محدودہے لیکن صبر کا اجروثواب لا محدود ہے۔ اس کی مثال اس دریائے ناپیداکنارکی ہے جس کا کوئی ساحل نہیں۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
(إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ) (الزمر:10)
’’صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔‘‘
اس آیت کریمہ میں صابرین کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ ان کو ان کے صبرکے بدلے میں اس طرح پورا پورا اجر دیاجائے گا کہ اسے حساب کے پیمانوں سے ناپنا ممکن نہیں ہوگا، یعنی ان کااجرغیرمتناہی ہوگا۔ سلیمان بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ہر عمل کا اجر وثواب محدود ہوتا ہے مگرصبرکامعاملہ اس قاعدئہ کلیہ سے جداگانہ ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمادیا ہے:
(إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ) (الزمر:10)
’’صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔‘‘
|