Maktaba Wahhabi

140 - 292
ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی ہریالی کو درخت سے اور اس کے جلدی ختم ہونے کو سائےسے تشبیہ دی۔ بندہ اپنے رب کی طرف مسافر ہے جو گرمی میں درخت کے سائےمیں گھر بنانے کی کوشش کرے گا اور نہ ہی وہاں رہے گا۔ بلکہ ضرورت کے مطابق سایہ لے گا، ورنہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے گا۔ تیسری مثال: دنیا مردہ بکری کی طرح ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس طرح بکری والوں کے ہاں بکری کی کوئی وقعت نہیں ہے اسی طرح اللہ کے ہاں دنیا کی کوئی وقعت نہیں۔‘‘ امیروں کی افضلیت پر کتاب و سنت کے دلائل : مال داروں نے کہا: اے غریبو! تم نے بہت سی دلیلیں بیان کیں۔ ہم تمھارے سامنے اس سے بھی زیادہ دلیلیں بیان کر سکتے ہیں لیکن ہم میانہ روی اپنائیں گے۔ ہم اپنے دلائل بیان کریں گے اور انھیں عقل اور شریعت کی کسوٹی میں تو لیں گے تو تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے افضل کون ہے…! مگر ہمارے درمیان سے ان غریبوں کو نکالو جو سچوں اور صبر کرنے والوں کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں لیکن دنیا کی حرص اور لالچ سے بھرے ہوئے ہیں اور فقر و صبر سے دور ہیں مگر غربت ظاہر کرنے والے اور حرص چھپانے والے ہیں، اپنے رب سے غافل ہیں اور خواہشات کی پیروی کرنے والے ہیں یا وہ جو غریب تو ہیں مگر ان کا صبر صرف مجبوری کی وجہ سے ہے اور ان کی دنیا سے بے رغبتی غربت کی وجہ سے ہے، نہ کہ اللہ اور آخرت کے لیے۔ یا وہ زبان حال سے تو شکوہ نہیں کرتا۔ مگر وہ رب سے اپنی غربت کی وجہ سے راضی نہیں ہے، بلکہ اگر اسے دیا جائے تو راضی ہوتا ہے اور اگر نہ ملے تو ناراض ہوتا ہے۔ اور ان مال داروں کو بھی نکال دو جو مال پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں اور مال آنے پر ان کے پیٹوں میں خوشی اور نقصان پر افسردگی بھر جاتی ہے، اور وہ اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے۔ اگر ایثار کا کہا جائے تو لڑنے کو آتے ہیں لیکن اللہ کی نافرمانی میں بے دریغ مال خرچ کرتے ہیں۔ ان کے لیے جنت میں مقام کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ ان میں سے زیادہ
Flag Counter