Maktaba Wahhabi

49 - 292
فَاحْذَرُوهُمْ ۚ) کے بارے میں سوال کیا تو ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اس کا شان نزول یہ بیان فرمایا کہ’’ مکہ میں کچھ لوگ مسلمان ہوئے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے جانے کا ارادہ کیا تو ان کی بیویوں اور اولادوں نے اس سے منع کر دیا اور جب وہ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور دیکھا کہ لوگ دین کی دولت سے مالا مال ہوچکے ہیں اور ہم محروم ہیں تو انھوں نے ارادہ کیا کہ اپنے بیوی بچوں کو سزا دیں تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔‘‘ اکثر اوقات انسان اپنے بیوی بچوں کی وجہ سے اپنا بہت سا نقصان کر لیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: ’’اولاد بخیل اور کنجوس بنا دیتی ہے۔‘‘ [1] دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ حسن و حسین رضی اللہ عنھما سرخ رنگ کی قمیصیں زیب تن کئے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور انھیں اٹھا کر اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا کہ اللہ کا فرمان سچا ہے: (إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ) (التغابن:15) ’’تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو محض ایک آزمائش ہیں۔‘‘ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچوں سے کمال لطف اور شفقت کی مثال ہے اور اپنی امت کو تعلیم ہے کہ بچوں سے شفقت اور نرمی کا سلوک کیا جائے۔ 2۔ خواہشات کے برعکس صبر : یہ بھی دو حال سے خالی نہیں، یا تو یہ بندے کے اختیار میں ہوگا، جیسے اطاعت و نافرمانی یا شروع میں تو اختیار میں ہوگا مگر اس میں داخل ہونے کے بعد اختیار نہیں ہوگا یا شروع ہی سے اختیار نہیں ہوگا۔لہٰذا اس کی تین اقسام ہیں: 1۔ وہ صبر جو انسان کے اختیار میں ہو : …اس میں وہ تمام افعال آجائیں گے جن کے کرنے کو اطاعت یا نافرمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ البتہ بندہ اطاعت پر صبر کرنے کا
Flag Counter