Maktaba Wahhabi

67 - 292
اس حدیث سے حاصل شدہ اسباق: ابو عبید رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کی وضاحت یہ کی ہے کہ ہر مصیبت کے دونوں جانب صبر ہے لیکن قابل تعریف صبر وہ ہے جو مصیبت کے عروج اور شدت کے وقت صبر کیا جائے۔ میں کہتا ہوں اس حدیث میں بہت سے علمی نکات ہیں: 1 مصیبت کے وقت صبر واجب ہے، بے شک یہ تقویٰ میں سے ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ 2 مصیبت کی شدت اور سخت صدمے کے وقت بھی ’’امر بالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ ساقط نہیں ہوتا۔ 3 ’’امربالمعروف‘‘ اور ’’نھی عن المنکر‘‘ کا تکرار کرنا حتیٰ کہ اللہ کے ہاں معذرت ثابت ہو جائے۔ 4 مصیبت کے وقت یہ دعا پڑھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا نعم البدل ضرور عطا فرماتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔ جو شخص کسی مصیبت کے وقت یہ دعا پڑھے : ((إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، أَللّٰھُمَّ أَجُرْنِيْ فِيْ مُصِیْبَتِيْ وَ أَخْلِفْ لِيْ خَیْراً مِنْھَا )) تو اللہ تعالیٰ اس چیز سے بہتر ضرور عطا فرماتے ہیں۔ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا کو یہ دعا سکھائی۔ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا دیکھتی ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہونے کا انجام کیا ہوتا ہے… اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا کو دنیا کے خاوندوں میں سے سب سے بہترین خاوند عطا کر دیا۔[1] اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب کسی کا بچہ فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے سوال کرتا ہے…، کیا تم
Flag Counter