رہی امیر کی بیعت کی تاکید والی احادیث اور ترک بیعت امیر پر وعید والی احادیث تو ان پر امیر ہونے کی صورت میں ہی عمل ہو سکتا ہے اور امیر نہ ہونے کی صورت میں مندرجہ بالا حدیث﴿فَاعْتَزِل تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّہَا﴾ پر ہی عمل ہو گا ۔ ۲۲/۱۰/۱۴۱۵ ھ
س: حدیث شریف میں مذکور ہے کہ جو بھی جماعت سے علیحدہ ہو کر وفات پاتا ہے اس کی موت جہالت پر ہے ۔ جماعت کے لیے امیر ہونا ضروری ہے ۔ اور بغیر امیر کے جماعت ہی نہیں آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہماری جماعت اہل حدیث میں مختلف امیر ہیں مختلف جماعتیں ہیں ۔ آپ ہم کو بتائیں کہ ہم کون سی جماعت اور امیر کے ماتحت چلیں ۔ آپ کسی امیر اور جماعت کے ساتھ چل رہے ہیں ہمارے اکثر علمائے کرام کہتے ہیں کہ جماعت اہل حدیث حق پر ہے کیونکہ جماعت صرف قرآن وحدیث کی دعوت دیتی اورچلتی ہے پھر مختلف جماعتیں اور امیر کیونکر بنے ہوئے ہیں ۔ ایک امیر اور ایک ہی جماعت ہونی چاہیے ورنہ ہم کو ان امیروں اور جماعتوں سے کنارہ کش ہو جانا چاہیے ۔ اللہ کے لیے ہماری صحیح رہنمائی فرمائیں؟ محمد یعقوب ہری پور26/6/95
ج: جاہلیت پر موت والی حدیث تو تب چسپاں ہو سکتی ہے جب جماعت وامیر ہو جب جماعت وامیر نہ ہو تو پھر تمام گروہوں سے علیحدہ رہنے کا حکم ہے اتنی بات میں آپ کے پہلے سوال کی تمام شقوں کا جواب آ گیا ۔ آپ غور فرما لیں کتاب وسنت پر عمل کرتے رہیں ۔
۱۵/۲/۱۴۱۶ ھ
س: (۱) امیر جس سے چاہے مشورہ کرے یا ارکان شوریٰ کی تعیین ثابت ہے اور کیا یہ تعیین انتخاب عام سے ہو گی یا امیر کی طرف سے نامزدگی کی صورت میں ہو گی ۔
(۲) مجلس شوریٰ میں اختلاف رائے کی صورت میں فیصلہ کیسے ہو گا :(۱) اتفاق رائے سے (۲) کثرت رائے سے یا فیصلہ کا حق امیر کو ہو گا۔ قرآن وسنت اورخلفائے راشدین کے عمل کی روشنی میں جواب مرحمت فرما کر عند اللّٰه ماجور ہوں۔ سلیم اللہ کمیرپوری مصطفی ٹاؤں بھلوال
ج: ( ۱) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَشَاوِرْہُمْ فِی الْأَمْرِ﴾1 [اور معاملہ میں ان سے مشورہ لے] نیز اللہ جل وعلا کا قول ہے :﴿وَأَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ﴾2 [اور ان کا کام آپس کی صلاح سے چلتا ہے]
فی زمانہ اصطلاحی ’’مجلس شوریٰ‘‘ کا کتاب وسنت میں کہیں اتہ پتہ نہیں ملتا ارکان شوریٰ ، ان کی تعیین پھر تعیین
|