میسر نہ ہونے کی صورت میں درست ہے ۔
یاد رہے مسنہ میسر نہ ہونے کی دو حالتیں ہیں ۔(i)۔ مسنہ کا منڈی بازار وغیرہ میں نایاب ہونا۔
(ii)۔ مسنہ کا منڈی بازار وغیرہ میں دستیاب ہوتے ہوئے بوجہ قلت مال اسے خریدنے کی سکت نہ رکھنا ۔
مسنہ کا معنی : صاحب نیل الاوطار ص۲۰۲ ج۵ لکھتے ہیں ’’قال العلماء : المسنۃ ہی الثنیۃ من کل شیء من الابل والبقر والغنم فما فوقہا ۔ ۱ ھ ‘‘
اہل علم کہتے ہیں دو دانتا یا اس سے بڑا مسنہ ہوتا ہے خواہ وہ اونٹ اونٹنی ہو خواہ گائے بیل اور خواہ بھیڑ مینڈھا بکری بکرا ۔ یہی بات علامہ احمد عبدالرحمن البنا نے الفتح الربانی کی شرح بلوغ الامانی ص۷۱ ج۱۳ میں لکھی ہے۔
صاحب قاموس ص۲۳۸ ج۲ لکھتے ہیں : اسن کبرت سنہ کاستسن ونبت سنہ ۔ ۱ ھ
جذعہ کا معنی : مشہور لغت دان علامہ فیروز آباد ی تحریر فرماتے ہیں ’’الجذع محرکۃ قبل الثنی وہی بہاء اسم لہ فی زمن لیس بسن تنبت او تسقط والشاب الحدث ۔ ۱ ھ ‘‘ کتب کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ بھیڑ بکری کی جنس میں پورے ایک برس کا جانور بالاتفاق جذعہ ہے البتہ ان دونوں جنسوں میں چھ ، سات ، آٹھ ، نو اور دس گیارہ ماہ کے بچے کے جذعہ ہونے میں اہل علم ولغت کا اختلاف ہے کچھ تو اس کو جذعہ قرار دیتے ہیں اور کچھ دوسرے اس کو جذعہ نہیں کہتے لہٰذا ٹھوس اور وزنی بات یہی ہے کہ قربانی میں مسنہ میسر نہ آنے کی صورت میں صرف ایک سالہ بھیڑ یا مینڈھا ہی ذبح کیا جائے ۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد اپنے سوالات کے ترتیب وار جوابات بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
(۱،۲) دو دانتے یا چار دانتے یا چھ دانتے یا اس سے بھی زیادہ عمر والے جانور اونٹ یا گائے یا بھیڑ یا بکری نر یا مادہ کی قربانی اس کے میسر آنے کی صورت میں ضروری ہے بشرطیکہ وہ ایسا عیب دار نہ ہو جس کی قربانی سے شریعت نے منع فرما دیا ہے اور ایسے جانوروں سے کوئی سا جانور میسر نہ آنے کی صورت میں یک سالہ بھیڑ یا مینڈھا ہی کی قربانی ہو گی ۔
(۳) ہر دو قسم کی بھیڑوں کی قربانی درست ہے کیونکہ ضأن (بھیڑ) کا لفظ دونوں پر بولا جاتا ہے ۔
(۴) بھیڑ کی جنس میں نر کو مینڈھا کہتے ہیں خواہ پتلی دم والا ہو یا چکی والا ہو ۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں اکثر مینڈھے کی قربانی دیا کرتے تھے امام مالک رحمہ اللہ اس جنس کی قربانی کو افضل قرار دیتے ہیں یاد رہے مسئلہ منیٰ کے علاوہ اپنے اپنے علاقوں میں کی جانے والی قربانیوں سے متعلق ہے ۔
|