Maktaba Wahhabi

403 - 592
س: (۱) صورت مسؤلہ میں متوفی چوہدری حاجی عبدالحفیظ صاحب مرحوم اپنی زندگی میں اپنی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کے مالک تھے اور اس میں تصرف کا حق تھا ۔ چونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں وفات سے بارہ تیرہ سال قبل اپنے بہنوئی کے نام پلاٹ الاٹ کرایا اور اس پر تعمیر کی یہ وصیت کے زمرہ میں نہیں بلکہ اپنے بہنوئی کے ساتھ اعانت ہے اور یہ شرعاً درست ہے جس بہنوئی کے نام پلاٹ الاٹ کیا گیا ہے وہ اس کا مالک ہے اس میں متوفی کے دوسرے ورثا کا کوئی حق نہیں نیز بہنوئی متوفی کے وارث نہیں اور یہ﴿لاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ﴾ کے تحت نہیں آتے ۔ العبد عبدالحمید مدرس جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ 22/4/92 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم جو تفصیل سوال میں درج کی گئی ہے اگر وہ صحیح ہے تو مکان مذکور حاجی عبدالحفیظ صاحب مرحوم کی طرف سے ان کے بہنوئی کو ہبہ ہے اور مفتی صاحب حفظہ اللہ کا جواب درست ہے ۔ عبدالمنان بن عبدالحق۔ جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ۱۸/۱۰/۱۴۱۲ ھ س: (۱) اگر میت3؍1سے زائد مال کی وصیت کر دے تو شرعاً نافذ العمل ہو سکتی ہے اور اس کے ورثا شرعیت کی رو سے اسے تبدیل کر سکتے ہیں یا نہیں جبکہ بہت سے ورثا کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے اور ضرورت مند ہیں ۔ (۲) منسلک وصیت پر تمام ورثاء اپنے جائز حصہ سے دست بردار ہو گئے تھے لیکن اب تمام ورثا یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وصیت غلط ہے اور میت پر سے بوجھ ختم کرنے کی خاطر تمام لوگ اس وصیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں لہٰذا قرآن وسنت کی روشنی میں اس بارے میں فیصلہ دیں کہ آیا ورثا ایسا کر سکتے ہیں ؟ محمد یحییٰ کراچی 8/1/90 ج: جناب کا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ نے وصیت کا مسئلہ دریافت فرمایا ۔ تو گزارش ہے کہ صحیحین میں حدیث ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے پاس مال ہے اور صرف ایک بیٹی میری وارث ہے تو کیا میں اپنے مال سے دو تہائی (3؍ 2 ) کی وصیت کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا تو پھر ایک تہائی (3؍1) کی وصیت کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک تہائی (3؍1) کی وصیت کر لو اور ایک تہائی (3؍1) زیادہ ہے ۔ الحدیث1 اس حدیث سے ثابت ہوا مرنے والا اپنے ترکہ میں سے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی (3؍1) کی وصیت کر سکتا ہے ایک تہائی (3؍1) سے زائد وصیت کرنے کی اجازت نہیں جب اجازت نہیں تو اگر کسی نے کسی وجہ سے ایک تہائی
Flag Counter